• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اے میری قوم! قومی سلامتی و ملکی دفاعی معاملات میں اعتماد، بھروسہ، یقین میں صرف پاک فوج کو اولیت دینا ہوگی۔ سیاستدانوں کی بے غرضی اور قابلیت ایسے معاملات سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ جناب حسین حقانی کے واشنگٹن پوسٹ کے حالیہ مضمون، میں نیا کیا ہے؟ پرانی گھڑی تراشیدہ کہانی کو ہی تو مزید کشید کیا ہے۔ کھلا تضاد، امریکہ میں، ’’حقانی نیٹ ورک‘‘ کی موجودگی پسندیدہ اور سودمند جبکہ پاکستان میں موجودگی کا مفروضہ، امریکی سوہانِ روح۔ برادرم حسین! بتانا ہوگا، ’’کافی‘‘ آپ کے لیے کب ’’کافی‘‘ ہوگا۔ مفادات کے تعاقب میں دین، وطن عزت، ناموس سب بے وقعت۔ 350 صفحات پر مشتمل کتاب "Magnificent Delusions" کا تھیم واشنگٹن پوسٹ کے مضمون سے مختلف نہیں ہے، ’’امریکہ اور پاکستان (زور پاکستان پر) کے تعلقات باہمی دھوکہ دہی پر استوار رہے ہیں۔ پاکستان کی تمام حکومتیں، بلاتفریق اس کارِخیر میں حصہ بقدر جثہ ڈالتی رہی ہیں‘‘۔ آج کا مضمون، کتاب کا خلاصہ ہی تو ہے۔ استثنا اتنا کہ ’’صدر زرداری بغیر الفاظ چبائے خلوص دل سے کھل کر امریکہ کا یارومددگار بتایا ہے‘‘۔ ’’حقانی صاحب دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو‘‘۔ جواب، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ صاحب نے نہیں دینا تھا۔ صدر زرداری کو دینا ہے، دینا پڑے گا۔ وائے نصیب، وطنی سیاستدان ہمیشہ موقع کی تلاش میں، اقتدار بچانے کے لیے ملک کو نقصان پہنچانا گوارا ہے۔ اپنی ہی افواج کی بیخ کنی کے لیے ہمہ تن، ہمہ وقتی تیار صرف اس لیے، کہ اقتدار کو دوام کی گارنٹی رہے۔1971میں بھگت چکے۔ کالا باغ ڈیم گنوا چکے۔ الطاف حسین جیسوں کا کچا چٹھا سامنے ہے۔ کچھ بھی تو جھوٹ نہیں۔ سلیقے کا سیاستدان کب نصیب ہو گا؟
جناب والا! اپوزیشن لیڈر کو یہ کب پتہ چلا کہ حسین ’’حقانی غدار‘‘ ہے۔ اپوزیشن لیڈر کو معلوم نہیں کہ 2011 میں حسین حقانی کی توہین آمیز رخصتی، بے آبرو برخاستگی کی وجہ کیا تھی؟ پیٹی بھائی( سی آئی اے ہرکارہ) منصور اعجاز نے ہی تو بیان دیا تھا، ’’بقلم خود ایک میمو حسین حقانی کو جائزے کے لیے بھیجا۔ جس میں صدر زرداری کی مرضی اور پسندیدگی سے امریکی قیادت کو دعوت دینا مقصد تھا تاکہ موجودہ (اُس وقت کی) فوجی قیادت کو فارغ کرنے میں امریکہ مدد دے‘‘۔ اپنی ایک اور کتاب، ـ"Pakistan: Between Mosque and Miltary" میں میمو گیٹ میں اٹھائے گئے تمام الزامات کی خود ہی توثیق کر ڈالی۔ کتاب، میمو گیٹ سے مختلف نہیں جبکہ میمو گیٹ کا لب لباب واشنگٹن پوسٹ کے حالیہ مضمون میں ہے۔ حقانی صاحب صدق دل سے سمجھتے ہیں کہ معین قریشی، شوکت عزیز، خلیل زادے، کرزئی، اشرف غنی کی طرح، وہ بھی بالآخر امریکہ کے پاکستان پر تسلط قائم ہونے کے بعد مسند اقتدار سنبھال لیں گے۔ سوشل میڈیا پر سچ ہی تو چلایا گیا۔
’’حالیہ مضمون، نئی انتظامیہ کی توجہ حاصل کرنے اور ترقی کے لیے درخواست جانی جائے ‘‘۔ اسلامی جمعیت طلبہ میں میرے ہم عصر، پہلی کود میں، جنرل ضیاء الحق کی گود میں۔ جب تک پاکستان رہے، پاک فوج کو شیشے میں اتارے رکھا۔ آدھی چھلانگ پر1988 میں نواز شریف کی گود میں۔ اگلی پھلانگ نے PPP کے بغل میں پہنچا دیا۔ سارا عرصہ عسکری اداروں کی چھاتی سے چمٹنے کی کوششیں ترک نہ کیں۔ اب امریکی CIA کی آغوش کو اپنی آخری آرام گاہ بنا چکے ہیں۔ چشم تصور میں اگلی منزل ٹرمپ انتظامیہ نے ممکن بنانی ہے۔
1973 کا تعارف، فوری دوستی میں تبدیل ہوا۔ پچھلے دنوں، ایک سماجی رابطہ کی سائٹ پر ازراہ تفنن ’’مسٹر حقانی‘‘ کہہ کر مخاطب کیا تو ترت سرزنش کر ڈالی، ’’بھائی جیسے تعلق کو ’’مسٹر ‘‘ میں کیوں بدلا‘‘۔ پاکستان اور اسلام میری کمزوری، ماں باپ بچے سب کچھ قربان، ذاتی تعلق جائے بھاڑ میں، خاطر نہیں لاتا۔ وطن عزیز کو نقصان پہنچانے والے، آنکھوں میں کھٹکتے رہیں گے۔
1993 کے دنوں کی بات، کراچی میں ایک دفعہ حقانی صاحب کی معیت میں ان کے گھر جاتے ہوئے، دبے لفظوں میں عرض کی، پیپلز پارٹی سے تعلق نام و مقام، عزت و احترام کے ہر درجے سے جناب کو محروم کردے گا۔ کوثر نیازی کی مثال دی۔ دنیاوی فائدے بے شمار ہوں گے مگر ابھرتا کیرئیر داغدار رہے گا۔ زندگی عزت و وقار کے بغیر گزارنی ہوگی۔ جواب حیران کرگیا، ’’ایسی اقدار، پنجابیوں اور مڈل کلاسیوں کی اکڑ بازی ہے۔ کراچی کی معاشرت، رویوں میں یہ سب غیر معنوی اور ثانوی ہیں‘‘۔ دنیاوی رفعتیں، حقانی صاحب کی نظر میں جچ چکیں تھیں۔ جھکنے والوں کی قطار میں کھڑے، دھکم پیل سے باز کبھی نہ آئے۔ انگریزی لفظ overambitious کا متبادل اردو لغت میں موجود نہیں۔ غیر معمولی overambitious ہی تو ہیں۔ خاکہ زندگی میں ’’مفادات کے حصول میں مطلوبہ نتائج‘‘ کے لیے ہر انتہا پر جا سکتے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کا مضمون حقانی صاحب کی قطار میں لگنے کے لیے جاری دھکم پیل کا تسلسل ہی جانا جائے ۔ افسوس بلکہ قابل مذمت کہ اپنے ہی مضمون کی تاویلات، وضاحتیں توڑ موڑ کر پیش کرنے میں پیش پیش ہیں۔ پاکستان میں بیان دیتے فرق معنی پہنانے میں مستعد جبکہ امریکہ میں مقصد براری کے لیے اصل مدعا دائر کر رکھا ہے۔ پُرعزم، پرعزیمت، حوصلہ مند، ذہین فطین قلم کار کو اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ دیا، بے پناہ صلاحیتوں سے مالامال، حالیہ مضمون نہ لکھ سکے۔ حالیہ مضمون ہیر پھیر کا مجموعہ، تضادات کے سوا کچھ بھی نہیں۔
بدقسمتی، پاکستانی سفیر امریکی نمائندہ بن کر اترا رہا ہے۔ امریکی مفادات کو پاکستان میں پروان چڑھانے کا سہرا باندھ چکا ہے۔ جبکہ امریکی مفادات پاکستان کی اکھاڑ بچھاڑ سے وابستہ ہیں۔ مضمون میں اپنی کارکردگی کا تقابلی جائزہ روسی سفیر سرجی کسلیک کے ساتھ کر ڈالا۔ کنفیوژن سے رچا بسا مضمون، متضاد دلائل کی الجھن بڑھا گیا۔ روسی سفیر پر امریکی الزام یہ ہے، ’’امریکی انتخابات میں مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کی‘‘۔ حقانی صاحب وفور مفادات میں یقیناً چوک گئے۔ اپنی مثال پیش کر دی۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ شدت جذبات سے روسی سفیر کی امریکی سیاستدانوں سے ملاقاتیں اور دوسرے کونے کھدروں میں چھپی معلومات کو تلاش کرکے روس کی امریکی انتخابات میں مداخلت کا تعین کر رہی ہے۔ اس جانچ میں کہ ’’روس کتنا زیر اثر کرنے میں موثر رہا‘‘؟ جبکہ امریکہ میں ’’حقانی نیٹ ورک‘‘ کی ترتیب و ترجیح پاک فوج کو امریکہ کے زیر بار رکھنا، مطمح نظر تھا۔ خود ہی تو اپنی کتابوں اور مضامین میں ایسی گواہی رقم کر چکے ہیں۔
روسی سفیر بارے، امریکی اسٹیبلشمنٹ کا موقف، ’’آداب سفارتکاری سے تجاوز ہوا ہے‘‘۔ جبکہ پاکستانی سفیر، اپنے ہی ملک و قوم کے مفاد کے برخلاف سرگرم، تجاوز فرماتے رہے۔ حقانی صاحب واشنگٹن بیٹھ کر شاید اندازہ نہیں کر پائے کہ دنیا کروٹ لے چکی ہے۔ آج سے پانچ سال پہلے، چین روس کی ابھرتی طاقت، مزید چین روس، پاکستان، ایران اور ترکی کا گٹھ جوڑ زیربحث نہیں تھا۔
مانا کہ آج بھی امریکہ، بھارت اور اسرائیل مل کر ایٹمی طاقت پاکستان کو غیر مستحکم، افراتفری، انارکی کا حصہ بنانے میں باجماعت مصروف ہیں۔ مملکت خداداد امریکی سی آئی اے، انڈین را اور اسرائیلی موساد کا خصوصی ہدف بن چکی۔
سال پہلے وجہ خطے پر تسلط قائم کرنے کے لیے تگ ودو اور اب خطے کو اپنے تسلط سے نکلتا دیکھ کر بوکھلاہٹ کے گرداب میں ہے۔
عرض صرف اتنی کہ دشنام طرازی، مغلظات، خبث دروں ایسوں کی مایوسی ہی بڑھائے گی۔ یہ بات اپنی جگہ مسلم کہ پاکستان کے پاس اب فرصت ہی نہیں کہ امریکی سازشوں، معاندانہ کٹھ پتلی حکومت افغانستان، بھارتی ریشہ دوانیاں یا افادیت طالبان کو کوئی درجہ یا حیثیت دے۔ خطے میں ابھرتی، جاری گریٹ گیم کا کنٹرول چین، روس ، پاکستان، ایران ترکی جانب منتقل ہوچکا ہے۔
یقین دلاتا ہوں، بلندی کے اس سفر کی جانب ہر رکاوٹ ریزہ ریزہ رہے گی۔ ’’حقانی نیٹ ورک‘‘ ان امریکہ خاک و خاکستر بننا مقدر جبکہ امریکی عزائم ایسی خاک چاٹنے پر مجبور۔ امریکی لڑکھڑا چکے، "Americans are to bite the dust"۔ مملکت ِخداداد کی سلامتی کی ضامن ،پاک فوج کو سلام۔



.
تازہ ترین