• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سی آئی اے کو قاتل بھرتی کرنے کی ضرورت پڑ گئی، پوشیدہ الفاظ میں اشتہار دیا گیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ایجنسی کو ایسے بیوروکریٹ کی ضرورت ہے جو کسی بھی قسم کا حکم بجا لانے میں تامل نہ کرے۔ تین امیدواروں کی چھانٹی کی گئی اور انہیں بندوق تھما کے کہا گیا کہ ساتھ والے کمرے میں تمہاری بیوی کرسی سے بندھی ہے، اسے گولی مار کر ہلاک کر دو۔ پہلے امیدوار نے صاف انکار کر دیا، دوسرا ہمت کر کے کمرے میں گیا مگر روتا دھوتا واپس آگیا کہ کوشش کے باوجود وہ یہ کام نہیں کر سکتا۔ تیسرے ایک سردار جی تھے، انہیں جب بندوق دی گئی تو وہ گردن اکڑا کر کمرے داخل ہوئے، تھوڑی دیر بعد اُس کمرے سے چیخنے چلانے اور کراہنے کی آوازیں آنی لگیں، سب لوگ گھبرا کر کمرے میں گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سردار جی کی بیوی کرسی پر مردہ پڑی ہے اور سردار جی اطمینان سے سگریٹ پی رہے ہیں۔ سی آئی اے کے افسر نے پوچھا سردار جی یہ کیا ہے؟ سردار جی نے جواب دیا ’’آپ نے بتایا ہی نہیں کہ بندوق میں ربر کی گولیاں ہیں، بڑی مشکل سے میں نے اِس کے سر پر کرسی مار مار کے ہلاک کیا ہے!‘‘
یہ تو معلوم نہیں کہ سردار جی کو سی آئی نے بھرتی کیا یا نہیں البتہ جس تندہی کے ساتھ انہوں نے اپنے افسر کے حکم کی بجا آوری کی اُس پر انہیں پیدائشی بیوروکریٹ کا خطاب ضرور دیا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کچھ لوگ اسے دُور کی کوڑی سمجھیں مگر حقیقت زیادہ مختلف نہیں، سرکاری افسر بہرحال اپنے باس کے آگے ’’یس مین‘‘ ہی ہوتا ہے۔ کچھ استثنیٰ البتہ ضرور ہوتے ہیں، ایسے ہی ایک استثنیٰ ظفر محمود صاحب ہیں، بیوروکریٹ ہیں، وفاقی سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے، چیئرمین واپڈا رہے اور اب اُن کا ایک نیا روپ سامنے آیا ہے... افسانہ نگار کا۔ نیا روپ عام آدمی کے لئے کیونکہ اُن کے افسانے پہلی مرتبہ کتابی شکل میں شائع ہوئے ہیں۔ چند ماہ پہلے انہوں نے مجھے فون کیا اور کہا کہ ایک ضروری بات کرنی ہے، فون پر نہیں ہو سکتی، میں الجھن میں پڑ گیا کہ ایسی کون سی بات ہے جو وہ ذاتی طور پر مل کے کرنا چاہتے ہیں، خدا خیر کرے ایسے سرپرائز مجھے کبھی اچھے نہیں لگے۔ اگلے روز اُن کے بتائے ہوئے ریستوران میں پہنچا، اِدھر اُدھر کی باتیں شروع ہوئیں، میں نے بے چینی سے پہلو بدلا اور پوچھا ’’سر، آپ نے کون سی بات کرنے کے لئے مجھے بلایا تھا؟‘‘ ظفر صاحب نے کرسی آگے کی، بغل سے کتاب نکالی اور سرگوشی کی ’’میں افسانے بھی لکھتا ہوں!‘‘ یہ بات انہوں نے ایسے کی جیسے کوئی شخص کسی گناہ کا اعتراف کرتا ہے۔ میں نے گہری سانس لی اور کتاب داب کر نکل آیا۔ حکم اُن کا یہ تھا کہ تمام افسانے پڑھ کر بتاؤں کہ کیسے لگے، ایک بے رحم نقاد کی طرح۔
’’دائروں کے درمیاں‘‘ ظفر محمود کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ظفر صاحب میرے باس ہیں اور نہ اب وہ نوکری میں ہیں، گالف کھیلتے ہیں، دوستوں سے گپ شپ کرتے ہیں، کتابیں پڑھتے ہیں اور حالات حاضرہ پر دلچسپ تبصرے کرتے ہیں۔ لہٰذا میں اطمینان کے ساتھ اُن کے افسانوں پر بے رحم تنقید کر سکتا ہوں۔ آپ کسی شخص سے کوئی کتاب زبردستی نہیں پڑھوا سکتے، یہ کلیہ مجھ پر بھی لاگو ہوتا ہے، ظفر محمود کے افسانے میں نے یہی سوچ کر پڑھنے شروع کیے کہ کتاب میں دم ہو گا تو خود بخود صفحے الٹتا جاؤں گا، یہی ہوا، پہلے ہی ہلے میں آدھی سے زیادہ کتاب میں نے ختم کرلی اور دوسری نشست میں باقی ماندہ۔ کوئی ایک افسانہ بھی ایسا نہیں جسے پڑھے بغیر آپ آگے نکل جائیں۔ دو افسانے ایسے بھی تھے جنہیں میں نے بوجوہ ایک سے زیادہ مرتبہ پڑھا ’’کھری عورت‘‘ اور ’’لالو کھیت کی لڑکی‘‘۔....نام ہی کافی ہے۔ ظفر محمود چونکہ بے حد سینئر ہیں اس لئے حد ادب میں اِس سے زیادہ تبصرہ نہیں کر سکتا کہ اِن افسانوں میں جس طرح انہوں نے عورت کا سراپا اور ’’اندرونی کیفیات‘‘ بیان کی ہیں اِسے پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے سرکاری نوکری کے دوران وہ اِس قسم کے تجربات سے ضرور دوچار ہوئے ہوں گے جس کا ذکر انہوں نے اِس چابکدستی سے کیا ہے۔ ’’لالو کھیت کی لڑکی‘‘ میں لفظ ’’لالو کھیت‘‘ نے سارا رومانس کرکرا کر دیا، اصولاً اس افسانے کا نام ’’پرسنل سیکرٹری‘‘ ہونا چاہئے تھا، باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔ یہ افسانے پڑھ کر میں نے ظفر صاحب کو فون کیا اور کہا ’’سر، آپ کے افسانے کافی بولڈ ہیں!‘‘ جواب میں انہوں نے ایک قہقہہ لگایا اور بولے ’’بولڈ تو صرف انڈین فلموں کے سین ہوتے ہیں۔‘‘
کتاب کا لاجواب افسانہ ’’طلسمی چادر‘‘ ہے۔ ایک دیندار شخص کی کہانی جو اپنے کاروبار کو بڑھاوا دینا چاہتا ہے مگر جس کے لئے سرمائے کی ضرورت ہے، بینک ضمانت دینے کو تیار ہے مگر وہ شخص سود کے لین دین کا قائل نہیں، کوئی اسے قرض حسنہ لینے کا مشورہ دیتا ہے مگر پھر ایک سوال آ کھڑا ہوتا ہے جس کا اُس کے پاس کوئی جواب نہیں کہ اگر وہ کسی سے دو لاکھ روپے قرض حسنہ لے کر سال بعد دو لاکھ ہی واپس کرے تو حقیقت میں مہنگائی کی شرح کی وجہ سے دو لاکھ کی حیثیت ایک لاکھ اسّی ہزار رہ جائے گی جبکہ دین کا حکم ہے کہ امانت پوری کی پوری واپس کرو! افسانے میں چونکا دینے والا موڑ اُس وقت آتا ہے جب وہ دیندار شخص اپنا یہ مسئلہ مولوی صاحب کے آگے بیان کرتا ہے اور جواب میں وہ اُسے مشورہ دیتے ہیں کہ اپنی سولہ برس کی بیٹی کا رشتہ قرض حسنہ دینے والے سے کر دے۔ اسی طرح ’’او ایس ڈی‘‘ میں ظفر محمود نے بیورو کریسی کا اصل چہرہ بے نقاب کیا ہے، ایک ایسے افسر کی روداد جسے او ایس ڈی بنا دیا جاتا ہے اور پھر وہ اپنی تعیناتی کروانے کے لئے پستی کے گڑھے میں گرتا چلا جاتا ہے۔ ’’محب وطن‘‘ دینو کی کہانی ہے، ایک غریب موچی، عام محنت کش جس کے چہرے کی جھریوں سے اُس کے غموں کا شمار کیا جا سکتا ہے، مگر کسی سے شکایت نہیں کرتا، اس کی خواہش فقط اتنی ہے کہ اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر کسی قابل بنا دے، لوگ مشورہ دیتے ہیں کہ بچوں کو مستری کے پاس کام سیکھنے پر لگا دو پر وہ نہیں مانتا۔ بڑی مشکل سے پانچ سو روپے قرض لے کر فٹ پاتھ پر اپنے لئے چھپر تیار کرتا ہے تاکہ گرمی میں لُو سے بچا جا سکے، مگر شہنشاہ وقت کی سواری سے پہلے وہی انسپکٹر چھپر گرا دیتا ہے جسے تین سو روپے رشوت دی تھی، شہنشاہ کی سواری کے موقع پر وہ آگے بڑھ کر سلام کرنے کی کوشش کرتا ہے، ایک سپاہی کا ڈنڈا سر پر لگتا ہے اور اُس کی قوت گویائی ختم ہو جاتی ہے۔ اگلے روز دینو کی گھر والی دو چھوٹے چھوٹے بچوں کو مستری کی دکان پر چھوڑ آتی ہے۔
ظفر محمود نے اپنے اِن دس افسانوں میں ہماری سوسائٹی کا بائی پاس آپریشن کیا ہے، انہوں نے نشتر سے معاشرے کا سینہ چیر کے ہمیں اپنا باطن دکھایا ہے، اِن افسانوں میں ظفر محمود ایک ایسے جراح کے طور پر سامنے آئے ہیں جس کا مریض کامیاب جراحی کے بعد سرجن کا احسان مند ہو جاتا ہے۔ ظفر محمود گریڈ بائیس کے بیوروکریٹ تو تھے ہی بہت جلد وہ گریڈ بائیس کے افسانہ نگار بھی مانے جائیں گے۔



.
تازہ ترین