• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایجوئر روڈ لندن کے کسی حجرے میں چراغ کی لو ہوا سے کہہ رہی ہے۔ ’’کہانی ختم سمجھو‘‘۔ کلفٹن کراچی کی گہما گہمی سے لاہور بحریہ کے ایک قلعہ میں پرندے سرگوشیاں کر رہے ہیں۔ ’’کہانی ختم سمجھو‘‘ سپریم کورٹ کی عمارت کی جو دیوار قومی اسمبلی کی طرف ہے۔ اُس پر بھی ہر صبح کوئی شوخ لکھ جاتا ہے۔ ’’کہانی ختم سمجھو‘‘ اور پھر سارا دن ارکانِ اسمبلی اسے مٹاتے رہتے ہیں۔ آبپارہ کے نزدیک سرخ عمارت اپنے حواریوں کو بار بار ردِ فساد کا یہی میسج بھیج رہی ہے کہ ’’کہانی ختم سمجھو‘‘ باقی کہانیاں پھر کبھی اِس وقت ایجوئر روڈ کی خاموشیوں پر سرسری سا تبصرہ۔ بادشاہ کی بیماری چھپانے کی روایت بہت پرانی ہے مگر ولی عہد کے تقرر کی سرگوشیوں کا شور چیخ چیخ کر بہت کچھ بتا جاتا ہے۔ بل کھاتی ہوئی کہانی کسی نہ کسی موڑ پرچیخ پڑتی ہے۔ یہ کہانی بھی اُن سطور تک جا پہنچی ہے جن کے بعد ”ختم شد‘‘ کی لکیر کھینچ دی جاتی ہے۔ کئی دنوں سے کچھ کردار پرانی کہانی سے نکل کر نئی کہانی بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ دوسروں کی طرح میں بھی ان کی کامیابی کیلئے دعاگو ہوں مگر الطاف حسین کی کہانی کے اختتامیہ سے اِس بات کا کوئی تعلق نہیں۔ تازہ ترین ویڈیو میں مضمحل قویٰ کی کہانی دیکھنے والوں کو آخری ایپی سوڈ دکھا رہی ہے۔
یہ کہانی وہ ہے جس کے دامن پر انسانی خون کےہزاروں داغ ہیں۔ اس کا اختتام اسکاٹ لینڈ یارڈکے لیٹر ہیڈ پرنہیں لکھا جا سکا تھا۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ سے فنڈنگ لینے کے اعتراف نامے بھی یہ کہانی ختم نہیں کر سکے تھے۔ ٹارگٹ کلنگ کے شہر میں سینکڑوں پیشہ ور قاتلوں کےاعلانِ جرم پر بھی کہانی چلتی رہی تھی۔ مگر اس وقت کہانی کےپائوں کا گیگرین اتنا بڑھ چکا ہے کہ سہارا بھی قدم اٹھانے میں کوئی رول ادا نہیں کر پا رہا۔ بائی پولر ڈپریشن کی ادویات استعمال کرنیوالے شخص کیلئے الکوحل زہر سے کم نہیں سمجھتا جاتا۔ یہ دونوں چیزوں کے ایک طویل عرصہ سے اکٹھے استعمال نے نئی پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔ ادویات کے سبب غنودگی بے ہوشی تک پہنچ رہی ہے اور ایسے میں اگر بلڈپریشر اور شوگر کےمرض بھی لاحق ہوں تو معاملہ دل کی شریانوں سے گفتگو کرنے لگتا ہے۔ ایسے مریضوں کیلئے سردیوں کا موسم بہت خطرناک ہوتا ہے خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں سورج کم نکلتا ہو ایسے مریضوں کی حالت بہت خراب ہو جاتی ہے، برطانیہ میں اس وقت اس مرض کے شکار سینکڑوں مریض خودکشی کر چکے ہیں۔ یہ اس مرض کی آخری اسٹیج ہے جس کا بظاہر بالکل اندازہ نہیں ہوتا۔
برطانوی پیش بینوں کے مطابق کہانی کے آخری موڑ کی واضح عکاسی دو تین مہینوں تک ہو گی جب سمندر پار تک منظروں کی ترسیل کرتے ہوئے کیمرے پنڈال پر پرواز کریں گے۔ اِس پنڈال میں لوگ اپنی مرضی سے آئیں گے اپنی ٹرانسپورٹ پر آئیں گے۔ سرکاری مشینری کا کوئی پرزہ کہیں نہیں ہو گا۔ کراچی کی تاریخ میں یہ پہلا جلسہ ہوگا جس میں اہل کراچی اپنی مرضی سے شریک ہو کر کہانی کے خاتمے کا اعلان کر دیں گے۔ وہاں آنے والا ہر کردار یہی کہہ رہا ہو گا کہانی ختم ہو چکی ہے۔
وہ جو کہہ رہے ہیں کہ دریا سے قطرے نکلنے سے دریا ختم نہیں ہوا کرتے ان کی خدمت میں عرض ہے کہ وقت نے کئی دریا گم ہوتے ہوئے دیکھے ہیں۔ اگر انہیں یقین نہیں آتا تو لاہور آئیں۔ راوی اور ستلج کی ویرانی دیکھیں۔ راوی اور ستلج کو دیکھنے کی ضرورت صاحبان لاہور کو بھی ہے۔ وہ بھی دریا کی طرح بہتے چلے جا رہے ہیں۔ انہیں بھی چاہئے کہ اپنے کناروں کی خیر مانگتے رہیں وگرنہ دریائوں کا کیا ہے۔ وہ خشک بھی ہو جاتے ہیں۔ کہانی ختم بھی ہو جاتی ہے۔
یقیناً وہ منظر خوبصورت ہوگا جب کہانی ختم ہو گی۔ ساحر نے کہا تھا رات جتنی بھی سنگین ہو گی، صبح اتنی ہی رنگین ہو گی۔ مجھے یہ کہانی ہمیشہ رات کی کہانی محسوس ہوئی ہے۔ عہدِ درد کی داستاں لگی ہے۔ جس میں خون تھا۔ بوری بند لاشیں تھیں۔ ٹارگٹ کلنگ تھی۔ خوف تھا۔ جس نے کراچی جیسے مہذب اور خوبرو شہر سے اس کی روشنیاں چھین لی تھیں۔ جس نے دیارِ تہذیب کو جنگل میں بدل دیا تھا۔ جہاں جون ایلیا اور انور شعور جیسے شاعر پیدا ہوتے تھے وہاں صولت مرزا اور اجمل پہاڑی پیدا ہونے لگے تھے۔ جہاں صادقین کینوس پر رنگ بکھیرا کرتے تھے وہاں ٹارگٹ کلر سڑکوں پرخون بکھیرنے لگے۔ جہاں رئیس امروہوی اور حکیم سعید جیسے لوگوں کو شہید کر دیا گیا اور ”را‘‘ کے تربیت یافتہ دہشت گرد گلیوں میں پھرنے لگے۔ یقیناً یہ ظلمتِ شب کا ہی ماحول تھا۔ اسلئے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ رات کی کہانی ختم والی ہے۔ اللہ تعالی اہل کراچی کاحامی و ناصر ہو۔بے شک۔ صرف یہی نہیں کچھ اور کہانیاں بھی اپنے آخری موڑ پر پہنچنے والی ہیں۔ مگر انہیں اتنی جلدی نہیں بظاہر تو یہ کہانی بھی عجلت میں دکھائی نہیں دیتی۔ یہی لگتا ہے کہ پھر کوئی تجسس سے بھرا ہوا موڑ آگیا ہے۔ پھر کچھ کردار اپنے رول سے باہر نکل کر کچھ کرنے لگے ہیں۔ یا اُن کرداروں کی پتلیوں سے کسی اور نے اپنی تاریں جوڑ لی ہیں۔ جس کی وجہ سے تماشا کوئی اور چلا رہا ہے۔ پتلیاں کچھ اور کر رہی ہیں۔ مگر یہ پورا سچ نہیں ہے۔ بہرحال کہانی ختم ہونے کے اسباب پر اس وقت بحث کی جاسکتی ہے جب آخری شو کا رش سڑک پر آجاتا ہے۔



.
تازہ ترین