• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے ڈیڑھ دو ماہ میں یہ دوسری بار ہے جب وزیراعظم پاکستان نے اپنے ذاتی نظریاتی فریم میں دہشت گردی کے حوالے سے قومی بیانیہ جاری کیا، ریاست اور علماءپر’’ متبادل بیانیہ‘‘ دینے کی ضرورت سامنے لائے۔ 11مارچ 2017،دن کے پہلے حصے میں، سینٹرل پولیس آفس اورجامعہ نعیمیہ میں منعقدہ تقریبات میں ان کے بیان کو دوسرا ’’قومی بیانہ‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔
’’وزیر اعظم نے کہا، علماء فتوئوں سے نکلیں، دہشت گردی کے خلاف متبادل بیانیہ دیں، جہاد کا تصور مسخ کیا گیا، انتہا پسندوں کے بیانیہ کی غلطی سے آگاہ کیا جائے۔ دہشت گردی کے لئے دینی دلائل تراشے جاتے ہیں، مدارس دین کے عالم پیدا کرتے ہیں یا مسلکی مبلغ، علمائے دین کو یرغمال بنانے والوں سے آزاد کرائیں، نظام کا تسلسل قائم رکھنے کے لئے جمہوریت ضروری ہے، علماء کرام فتنے وفساد کا دروازہ بند کرسکتے ہیں‘‘۔
پاکستان کے منتخب وزیر اعظم کی دونوں تقریبات کی گفتگو پر مشتمل اس خلاصے میں وزیر اعظم کا اپنے ذاتی نظریاتی فریم میں دہشت گردی کے حوالے سے موجود قومی بیانیے کے ساتھ ساتھ بعض بنیادی تجاویز پیش کی گئیں اور ساتھ ہی بعض بنیادی سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں۔
مثلاً علماء فتوئوں سے نکلیں، تجویز سے جڑا سوال یہ ہے’’اتنا خون بہنے کے باوجود، اتنی فرقہ واریت کے خونی رقص کے بعد بھی،جو فتوے دے رہے ہیں، وہ کون ہیں؟ریاست اور علماء نے اب تک ان کی نشاندہی کیوں نہیں کی؟ کیا مزید لہو کے خراج کی ضرورت ہے؟ کیا مزید سرخ آندھیوں کی تباہی کا انتظار ہے؟ مثلاً’’انتہا پسندوں کے بیانیہ کی غلطی سے آگاہ کیا جائے‘‘، مطلب یہ کہ اسلام وہ نہیں جسے ان لوگوں نے’’برائے جہاد اور برائے تکفیر‘‘ اختیار کیا ہے، اسلام کا ایک نقشہ وہ بھی ہے جسے سرسید احمد خان سے لے کر غلام احمد پرویز تک، غلام احمد پرویز سے لے کر علامہ جاوید الغامدی تک جیسے مفکرین اسلام نے پیش کیا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی’’پرائیویٹ جہاد، کو اس وقت غیر اسلامی ڈکلیئر کیا جب حکومت وقت اور ماحول دونوں کے حالات میں ایسی’’شہادت حق‘‘ آتش فشاں کے دہانے پر قدم رکھنے کے مترادف تھی‘‘۔ حال ہی میں ایک اور مؤثر ترین فکری شہادت علامہ عمار زاہد الراشدی اور ان کے صاحبزادے محمد عمار خان ناصر کی وہ مسلسل جرأت مندانہ نظریاتی جدوجہد ہے جسے سو فیصد سے بھی زیادہ وزیر اعظم پاکستان کے اس جملے’’انتہا پسندوں کے بیانیہ کی غلطی سے آگاہ کیا جائے‘‘ کی عملی تعبیر کے مکمل نمونے کی حیثیت سے سامنے رکھا جاسکتا ہے۔ ’’اس حوالے سے فقہاء کا بیان کردہ یہ بنیادی اصول پیش نظر رہنا چاہئے کہ اگر مسلمان کا کوئی قول یا عمل ایک سے زیادہ احتمال رکھتا ہو اور ان میں سے بعض احتمال اس کی تکفیر کا تقاضا کرتے ہیں جبکہ کچھ احتمال اسے تکفیر سے بچاتے ہوں تو اس کی نیت اور ارادہ فیصلہ کن ہوگا، اگر اس نے اس عمل کا ارتکاب ایسی نیت سے کیا جو کفر کو متلزم ہے تو اس کی تکفیر کی جائے گی، جبکہ اس کے برعکس صورت میں تکفیر سے گریز کیاجائے گا‘‘۔پروفیسر شعبہ علوم اسلامیہ ڈاکٹر محمد ریاض محمود رقم طراز ہیں’’مسلم ریاستوں کے غیر مسلم باشندگان اہل ذمہ، اہل صلح، معاہدین اور محاربین کی اصطلاحات کے ابھائو میں اپنا وجود تلاش کررہے ہیں، ان کی وفاداریوں پر بلاوجہ شک کیا جارہا ہے۔ بعض حلقے یہ تاثر دینے کی کوشش میں ہیں کہ ان غیر مسلموں کے مغربی طاقتوں سے خفیہ روابط ہیں اور وہ مسلمانوں کے زیر انتظام علاقوں اور ممالک کے خلاف کسی بین الاقوامی منصوبہ بندی اور سازش کا حصہ ہیں۔ بعض طبقات ایک عجیب قسم کی نفسیاتی کیفیت میں مبتلا ہیں ،جس کے مطابق حقیقی دشمن پر قابو نہ پانے کی صورت میں کسی امکانی یا فرضی دشمن کو ہدف بنا کر ذہنی تسکین حاصل کی جاتی ہے ،چونکہ دور حاضر میں ترقی یافتہ مغربی ممالک کے خلاف کسی قسم کا قدم اٹھانا مسلم حکومتوں اور تشدد پر یقین رکھنے والے بعض مسلم طبقات کے بس کی بات نہیں، اس لئے وہ اپنے ممالک میں موجود کمزور اور بے بس اقلیتوں کو ہدف بناتے اور اپنا غصہ نکالتے ہیں‘‘۔
وزیر اعظم نے اپنی گفتگو کے اختتام پر اس مطلوب مقدار کے برابر وہ کچھ کہہ دیا جس کا خطرہ شاید کوئی دوسری قومی سیاسی جماعت مول نہیں لے سکتی تھی۔وزیر اعظم کے ذاتی نظریاتی بیانیے کے اس حصے میں انہوں نے کہا’’خون کی ہولی کھیلنے والوں کا اسلام سے کیسے تعلق ہوسکتا ہے، بعض لوگوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے دین کو یرغمال بنا رکھا ہے، دشمن کے ہاتھ ٹوٹ گئے جیسے ابولہب کے ہاتھ ٹوٹے تھے، اور یہ کہ’’وہ معاشرہ مسلم کہلانے کا مستحق نہیں جس میں مسلکی اختلافات کی وجہ سے انسان قتل ہوں، جہاں اقلیتیں خود کو غیر محفوظ سمجھیں اور جہاں مذہب اختلاف اور تفرقے کا سبب بنے۔اب اچھے اور برے طالبان کا دور ختم ہوچکا، کھیتوں میں بارود بویا جائے تو پھول نہیں کھلتے۔ دہشت گردی کی بنیادیں انتہا پسندی میں ہیں۔ وہ انتہا پسندی جو دین کے نام پر پھیلائی جاتی ہے جس کا ایک مظہر فرقہ واریت ہے اور دوسرے مظہر میں جہاد کے تصور کو مسخ کیا گیا اور خدا کے نام پر بے گناہوں کے قتل کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ یہی وہ بیانیے ہیں جنہوں نے انتہا پسند پید ا کئے، پہلے مسلمانوں کی تکفیر کی گئی اور پھر ان کے قتل کو جائز قرار دیا گیا، اس کے لئے ضروری ہے کہ ان بیانیوں کی غلطی کو واضح کیا جائے اور ایک نیا بیانیہ جاری کیا جائے‘‘۔
11؍مارچ2017ہی کو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف اپنا ایک تاریخی اعتراف اور تجزیہ ریکارڈ پر لائے۔ خواجہ صاحب نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سیالکوٹ کے نومنتخب عہدیداران سے حلف لینے کے بعد وکلاء سے خطاب میں کہا’’جن لوگوں نے آج ہم پر بندوقیںتانی ہوئی ہیں اور جن کے نشانے پر ہمارا ملک، سوسائٹی اور ہمارا نظام ہے ان کے ہاتھوں میں30سال پہلے اس وقت کی ریاست نے بندوقیں تھمائی تھیں ،اس وقت مقاصد مختلف تھے لیکن کسی نے نہیں سوچا تھا کہ یہ بندوقیں ہم پر ہی تانی جائیں گی۔ کسی کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ ان لوگوں کو سزائیں دینے کے لئے ہم قانون سازی اور آئین میں ترمیم کریں گے‘‘۔
30برس پہلے کون لوگ اور کون سے مکاتب فکر حکمران تھے؟ 30برس سے 7برس قبل یعنی 37برس پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے کن لوگوں کی قید میں تختہ دار کو سرفراز کیا تھا؟ 30ہو یا37برس ہوںوہ کون لوگ تھے جنہوں نے قیام پاکستان کے فوراً بعد قائد اعظم کی تقریر کو ’’سنسر‘‘ کرنے سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی تک پاکستان میں تقدیس کے عنوان سے کون سی کاشت کی، اب یہ تاریخ ہے، تفصیلات اور جائزہ بھیانک ہے، بزدل قلمکار تو اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا، ہاں! پاکستان کے تیسری بار منتخب وزیر اعظم قائد اعظم کی فکری روح کی صدا بن کے سامنے آئے ہیں۔ پاکستان کے آتش فشانی دہانے سے اتر جانے کے امکانات مضبوط تو ہوئے ہیں، بہرحال آئیے ہاتھ اٹھائیں اور دعا کریں!



.
تازہ ترین