• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج جاپان کو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں وہ مقام حاصل نہیں ہے جو امریکہ، برطانیہ،چین،یورپ یا سعودی عرب سمیت دیگر عرب ریاستوں کو حاصل ہے، اور شاید جاپان کو اس بات سے فرق بھی نہیں پڑتا کہ پاکستان جاپان کو اپنی خارجہ پالیسی میں کس قدر اہمیت دیتا ہے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ جن ممالک نے پاکستان کو سخت ترین شرائط پر مدد فراہم کی ہے، جن ممالک نے ہمیشہ ہی پاکستان کو دی جانیوالی امداد کو قسطوں میں تقسیم کیا اور ہر قسط کے ساتھ کچھ سخت شرائط عائد کیں اور ہر امدادی قسط کے ساتھ اگلی امدادی قسط کے لئے اپنی شرائط میں مزید سختی پیدا کی اور بالآخر اعلان کی جانیوالی اربوں ڈالر کی امداد میں سے ملین بھی پورے نہ مل سکے اور امداد روک لی گئی اور پاکستان پر پابندیاں بھی عائد کردی گئیں وہ ممالک آج بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اولین سطح پر موجود ہیں جبکہ پاکستان کو بلا کسی شرط کے انسانی بنیادوں پر اربوں ڈالر کی امداد کی فراہمی کے باوجود جاپان پاکستانی خارجہ پالیسی میں وہ مقام نہیں رکھتا جس کا وہ حقدار ہے۔ جاپان نے 1954میں پاکستان کو آفیشل ڈویلپمنٹ اسسٹنس پروگرام میں شامل کیا جس کے تحت پاکستان کو مختلف شعبوں میں تکنیکی تربیت فراہم کرنے کااعلان کیا گیا،1961میں پاکستان کی معاشی ترقی کے لئے جاپان کی جانب سے آسان اقساط اور کم شرح سود پر ین لون پروگرام شروع کیا گیا جبکہ1970میں پاکستان کے لئے امدادی پروگرام کا آغاز کیا گیا جس میں پاکستان کو مختلف معاشی منصوبوں کی تکمیل کے لئے گرانٹ ایڈ کی فراہمی شروع کی گئی،یہ تینوں پروگرام کامیابی سے پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے رہے تاہم 1998کے ایٹمی دھماکوں کے بعد جاپان نے پاکستان کے لئے مزید جاری ہونے والے ین لون اور گرانٹ ایڈ منصوبوں پر پابندی عائد کردی تاہم انسانی بنیادوں پر فراہم کی جانیوالی امداداور گراس روٹ منصوبوں کے لئے امداد کی فراہمی جاری رکھی گئی،پھر2001 میں امریکہ میں ہونے والے حملوں کے بعد پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اہم اتحادی بن کر نکلا جس کے بعد عالمی برادری کے ساتھ ساتھ جاپان کی جانب سے بھی پاکستان کی معطل امداد دوبارہ شروع کرتے ہوئے 2001میں تین سو ملین ڈالر کی امداد فراہم کی گئی،جبکہ آگے چل کر 2005 میں پاکستان کے لئے ین لون بھی بحال کردیا گیا، جبکہ اسی سال پاکستان میں زبردست زلزلہ آیا اس موقع پر جاپان نے پاکستان کو ایک سو نوے ملین ڈالر کی دل کھول کر امداد دی دہشت گردی کے خلا ف جنگ میں اہم کردار ادا کرنے اور اس جنگ سے پاکستان کو ہونے والے نقصان کی تلافی کے لئے جاپان نے پاکستان کے لئے ٹوکیو میں 2009میں ڈونر کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں جاپان نے انفرادی طور پر پاکستان کے لئے ایک ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا جس پر عملدرآمد بھی کیا گیا جبکہ اس سے اگلے سال ہی پاکستان میں تاریخ کے بدترین سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کے ازالے کے لئے حکومت جاپان نے پاکستان کے لئے 568ملین ڈالرکی امداد کا اعلان بھی کیا،یہ تو جاپان کی جانب سے مجموعی طور پر فراہم کی جانیوالی امداد کا خلاصہ تھا تاہم پاکستان میں وہ منصوبے جن پر جاپانی امداد کے باعث عمل درآمد ممکن ہوا ان کی تفصیلات بھی قارئین کے لئے پیش خدمت ہیں۔
جاپانی حکومت نے پاکستان کو ٹرانسپورٹ، پاور جنریشن یعنی بجلی کی فراہمی،تکنیکی تربیت،پبلک ہیلتھ، صحت، سیکورٹی،اور ملازمت کی فراہمی کے لئے وسائل کی فراہمی جیسے منصوبوں کو بھاری امداد کے ذریعے مکمل کیاہے، جاپان حکومت نے ملکی انفراسٹرکچر کی بہترین اور ٹرانسپورٹ کی فراہمی کے لئے پاکستان کی ہمیشہ ہی مدد کی ہے اس حوالے سے اہم منصوبے یعنی انڈس ہائی وے کی تعمیر کے لئے جاپانی حکومت نے پاکستان کو بھاری قرض فراہم کیا، انڈس ہائی وے کے مجموعی 1206کلومیٹر ہائی وے کا 79فیصد یعنی 956کلومیٹر جاپان کے تعاون سے ہی مکمل ہوا ہے جس پر جاپانی حکومت نے 67ارب ین کا آسان قرضہ حکومت پاکستان کو فراہم کیا ہے، جبکہ کوہاٹ ٹنل پروجیکٹ جس کی لمبائی 1-9کلومیٹر طویل ہے یہ سرنگ پاکستان اور جاپان کی دوستی سرنگ بھی کہلاتی ہے جاپان کی جانب سے 12-6ارب ین کی لاگت سے تعمیر کی گئی ہے،توانائی کے شعبے میں جاپانی حکومت نے 2014ء میں پاکستان کو پانچ ارب ین کا آسان قرضہ فراہم کیا تاکہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک کے تعاون سے بجلی کے جن منصوبوں پر پاکستان میں کام ہورہا تھا ان پر کام کی رفتار کو مزید تیز کیا جاسکے، جاپانی قرضے سے پاکستان میں توانائی کے شعبے میں ترقی ہوئی اور ملک میں بجلی کی فراہمی میں بہتری آئی،جاپان کی جانب سے پانچ ارب ین کی امداد سے پاکستان میں کنسٹرکشن ٹیکنالوجی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ بھی قائم کیا گیا تھا جہاں تعمیراتی مشینری کی اسمبلنگ اور مینٹیننس کی تربیت فراہم کی جاتی ہے،جاپان صحت کے شعبے میں شروع سے ہی پاکستان کی مدد کرتا چلا آرہاہے،جاپان نے ہی گیارہ ارب ین کی لاگت سے پاکستان میں پولیو ویکسین کی مہم شروع کرائی جبکہ دوہزار پانچ میں اس امداد میں پانچ ارب ین کا اضافہ بھی کیا گیا تاکہ پاکستان بھر میں پولیو کے خلاف چلائی جانیو الی مہم کو تقویت حاصل ہوسکے،دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم اتحادی ہونے کے ناطے جاپانی حکومت نے دو ارب ین کی لاگت سے پاکستان کے تین اہم انٹرنیشنل ائیرپورٹس پر گاڑیوں اور مسافروں کے سامان کی اسکیننگ اور چیکنگ کے لئے جدید ترین آلات اور اسکینر فراہم کیے تاکہ کسی بھی طرح کی دہشت گردی کے واقعات سے بچا جا سکے، صرف یہی نہیں بلکہ جاپانی حکومت نے خیبر پختوانخوا میں دہشت گردی سے متاثرہ افراد کو قومی دھارے میں لانے کے لئے تکنیکی تربیت کا خصوصی ادارہ بھی قائم کیا ہے تاکہ وہاں کے لوگوں کو مختلف شعبوں میں خصوصی تکنیکی تربیت فراہم کی جاسکے اور وہ معاشرے میں باعزت ملازمت حاصل کرکے روزی کما سکیں۔ اس منصوبے کے لئے جاپانی حکومت نے 220ملین ین کے تکنیکی آلات بھی فراہم کئے ہیں، جبکہ حال ہی میں کراچی میں ڈیڑھ ارب ین کی لاگت سے جاپانی حکومت نے بچوں کے علاج معالجے کے لئے اعلیٰ معیار کا اسپتال بھی قائم کیا ہے تاکہ غریب اور نادار بچوں کو اعلیٰ معیار کی صحت کی سہولتیں فراہم کی جاسکیں، یہ تو جاپانی حکومت اور جاپانی عوام کی جانب سے اپنے پاکستانی دوستوں کے لئے کچھ تعاون کی تفصیلات تھیں لیکن سوال یہ ہے کہ اتنے بلاغرض اور بلامقصد تعاون کے نتیجے میں ہم نے اپنے جاپانی دوستوں کو کیا دیا، ہم تو اپنی خارجہ پالیسی میں بھی وہ مقام نہیں دے سکے جس کا جاپان جیسا ملک اور اس کے عوام حقدار تھے؟



.
تازہ ترین