• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم میاں نواز شریف نے منگل کے روز کراچی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) سندھ اقلیتی ونگ کے تحت ہندوئوں کے تہوار ہولی کی تقریب سے خطاب میں درست طور پر ان تعلیمات کی طرف اشارہ کیا جو اسلام نے مسلم ریاستوں میں رہنے والے دوسرے مذاہب کے لوگوں سے رواداری کے ضمن میں دی ہیں۔ میاں نواز شریف کا ہندو برادری کے مذہبی تہوار کے موقع پر ان کے درمیان جانا، انہیں مبارکباد دینا ان کے مسائل جاننا اور ان کے حل پر توجہ دینا مملکت اسلامیہ کے وزیراعظم کی حیثیت سے ان کے فرائض منصبی کا ایک حصہ کہا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نے درست طور پر نشاندہی کی کہ پاکستان میں کہیں مذہبی جھگڑا نہیں ہے۔ اس وضاحت کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ پڑوسی ملک سے آئے روز مذہبی بنیادوں پر نہ صرف فسادات کی خبریں آتی رہتی ہیں بلکہ مسلمانوں، مسیحیوں، سکھوں اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں اور عبادت گاہوں پر حملوں میں حکومتی اہلکاروں اور سیاسی جماعتوں کے خصوصی جتھوں کے ملوث ہونے کے شواہد بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان میں بھی بعض عناصر مذہبی اختلاف کو بنیاد بناکر ملک کو کمزور کرنے کے درپے رہے مگر قوم نے ان کو مسترد کردیا۔ اگرچہ تفصیل میں جانے کا محل نہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ اسلامی ریاستوں کو کمزور کرنے کے لئے مخالف قوتوں نے ہمیشہ مذہبی اختلافات کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اس کے بانی قائداعظم محمد علی جناح ؒبرٹش انڈیا کی آزادی سے قبل ہندو مسلم اتحاد کے سب سے بڑے علم بردار تھے مگر جب یہ واضح ہوگیا کہ کانگریس میں موجود تنگ نظر عناصر متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کو مساوی حقوق دینے کی بجائے غلام بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں تو قائداعظم کو علیحدہ وطن کا مطالبہ کرنا پڑا تاکہ مسلمان اپنے علیحدہ وطن میں اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ برٹش انڈیا کی تقسیم کے فیصلے میں قائداعظم محمد علی جناح ؒاور موہن داس کرم چند گاندھی جی جیسے لیڈروں کے پیش نظر یہی مقصد تھا کہ برصغیر کی دونوں بڑی اقوام اختلافات میں الجھ کر توانائیاں ضائع کرنے سے بچیں اور اپنی اپنی ریاستی حدود میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے تعاون سے ترقی و خوشحالی کی منزلیں طے کریں۔ بھارتی قیادت میں موجود تنگ نظر عناصر دونوں ریاستوں کو تنازعات میں الجھا کر جنگوں کا ایندھن نہ بناتے تو جنوبی ایشیا دنیا کے خوشحال ترین خطوں میں شمار ہوتا۔ اب بھی بھارتی قیادت امن بات چیت کا راستہ اختیار کرے اور ’’سی پیک منصوبے‘‘ کا حصہ بنے تو خطے کو تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا خواب جلد پورا ہوسکتا ہے۔ میاں نواز شریف نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں مذہبی تصادم کی گنجائش نہیں۔ ان کے اس بیان کو کہ ’’پاکستان میں زبردستی مذہب تبدیل کرانا سنگین جرم ہے‘‘ کلام اللہ کی اس تعلیم کی روشنی میں دیکھا جانا چاہئے کہ ’’دین میں کوئی جبر نہیں‘‘۔ تاہم جو لوگ برضا و رغبت فلاح کے راستے پر آنا چاہتے ہیں، انہیں روکنے کا عمل بھی درست نہیں کہلا سکتا۔ حق تعالیٰ نے جس آخری نبیؐ کے ذریعے انسان کو انسان کی پرستش سے نکال کر خدائے واحد کے آگے سجدہ ریز ہونے کا سبق دیا اور قیامت تک کے لئے ایک ضابطہ حیات عطا فرمایا اس کی محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ اور اس کی ناموس کی حفاظت اپنے ماں باپ، بال بچوں اور اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے۔ جو قوتیں مسلمانوں کی اس محبت کو جانچنے کے لئے نت نئے شوشے چھوڑتی رہتی ہیں ان تک قومی اور پنجاب اسمبلی کی قراردادوں سے معاملے کی حساسیت کا پیغام ایک بار پھر پہنچ چکا ہے، توقع ہے کہ سوشل میڈیا کے بین الاقوامی اداروں سے رجوع کرنے کی وزیراعظم کی ہدایت کابھی کوئی نتیجہ سامنے آئے گا۔ تاہم مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان مذہبی رواداری کی امین مسلم مملکت کی حیثیت سے اقوام متحدہ میں باضابطہ قرارداد لاکر اس فتنے کو دبانے کی موثر تدابیر کرے۔

.
تازہ ترین