• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ روز شام کے وقت ٹی وی کھولا تو چینلز کو پنجاب حکومت اور صوبائی وزیر ہائیر ایجوکیشن سید رضا گیلانی کی دھلائی کر تے پایا۔ یوں محسوس ہوا جیسے وزیر صاحب نے کوئی بہت بڑا جرم کر دیا ہو۔ ٹی وی اینکرز تو جیسے لاٹھی لے کر اُن کے پیچھے پڑ گئے جبکہ دوسری طرف پنجاب حکومت کے وزراء اور ترجمان کی حالت ایسی تھی جیسے کوئی چوری کرتا ہوا پکڑا جائے۔ بات کھلی تو انتہائی تکلیف دہ۔ معاملہ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں طالبات کے لیے حجاب کو فروغ دینے کے لیے ایک تجویز سے متعلق تھا لیکن اس کو میڈیا نے ایسا رنگ دیا کہ تجویز دینے والے بھی دنگ رہ گئے۔ حجاب کا نام سن کر ہی میڈیا جیسے بدک گیا ہواور ایسی صورتحال پیدا کر دی گئی کہ پنجاب حکومت کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ حجاب کے متعلق کوئی تجویز زیر غور نہیں اور نہ ہی کوئی ایسا فیصلہ ہونے جا رہا ہے۔ کسی ایک شخص کو بھی توفیق نہ ہوئی کہ کم از کم اتنا ہی کہہ دے کہ حجاب تو عورتوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے احکامات میں شامل ہے ۔ فحاشی و عریانیت کو فروغ دینے والوں سے تو اس بات کی توقع تھی بھی نہ لیکن پنجاب حکومت یا اس کے کسی وزیر بشمول سید رضا گیلانی میں بھی اتنی جرأت نہ تھی کہ میڈیا کو اس منفی مہم جوئی سے روکے اور یہ وارننگ دیں کہ حکومت کسی صورت اسلامی احکامات کے ساتھ مذاق برداشت نہیں کرے گی۔ لیکن پنجاب حکومت کی حالت دیکھ کر ایسا لگا جیسے وہاں کے حکمرانوں کو اللہ کو نہیں بلکہ میڈیا کو جواب دینا ہے۔ جو حالت پنجاب کے متعلقہ وزیر کی کی گئی اُسے دیکھ کر ایک حدیث مبارکہ ذہن میں آئی جس کے مفہوم کے مطابق ایک ایسا وقت آئے گا جب اسلام کے احکامات پر عمل کرنا ایسا ہو گا جیسے کسی نے ہاتھ میں انگارہ پکڑ لیا ہو۔
آج کے اخبارات پڑھ کر اندازہ ہوا کہ اس معاملہ کی شروعات آصفہ بھٹو زرداری کے تنقیدی ٹویٹ سے ہوئی جس میں آصفہ نے کہا کہ پنجاب حکومت نے طالبات کے لیے حجاب کا فیصلہ تو کر لیا لیکن لڑکوں کا کیا بنے گا؟ دوسرے مذاہب کی لڑکیاں کیا کریں گی؟ اس ٹویٹ کے پیچھے سب چل پڑے۔ حالانکہ حقیقت میں نہ فیصلہ ہوا نہ کوئی پالیسی بنی لیکن ٹی وی چینلز میں بیٹھے اینکرز کے دل و دماغ میں جو آیا بولتے رہے۔ کسی نے کہا کہ حجاب کی پابندی لازم قرار دی جا رہی ہے تو کسی نے کہاکہ حجاب کرنے والی طالبات کو امتحانات میں اضافی نمبر دیئے جائیں۔ حالا نکہ بات کچھ اور ہی نکلی۔ ٹی وی چینلز نے تو کسی کو سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہ دیا کہ تجویز در اصل ہے کیا کیوں کہ ہر کوئی نئی نئی بات کر رہا تھا۔ آج کے اخبارات پڑھ کر پتا چلا کہ تجویز یہ تھی کہ حجاب کرنے والی طالبات کی اگر 65 فیصد سے کم حاضری ہو گی تو انہیں پانچ فیصد اضافی حاضریوں کی سہولت مہیا کی جائے گی۔ یہ بھی تجویز زیر غور تھی کہ کالجز میں صبح کی اسمبلی کا آغاز کیا جائے جس کا مقصد طلباء و طالبات کی کردار سازی پر خصوصی توجہ دینا ہے۔ لیکن ٹی وی چینلز نے یہ سب کچھ منظوری سے پہلے ہی رد کر دیا۔ حجاب کے خلاف اس مہم جوئی میں چن چن کر ایسے افراد سے انٹرویوز لیے گئے جو عورتوں کے حجاب کی مخالفت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ ممبر سندھ اسمبلی مہتاب اکبر راشدی سے اُن کے تاثرات لیے گئے تو جواب میں انہوں نے پنجاب حکومت کی فروغ حجاب سے متعلق تجویز کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حجاب کا فروغ ملک کے لیے جگ ہنسائی کا باعث بنے گا۔ کسی نیوز اینکر کو یہ پوچھنے کی توفیق نہ ہوئی کہ یہ مجوزہ پالیسی تو اسلامی احکامات اور آئین پاکستان کی روح کے عین مطابق ہے اس لیے اس تجویز کی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مخالفت کیسے کی جا سکتی ہے۔ پاک فضائیہ سے ریٹائرڈ ایک ’’دانشورـ‘‘ تو اتنے غصہ میں تھے کہ کہہ دیا کوئی پنجاب کی بچیوں پر حجاب زبردستی لاگو نہیں کر سکتا اور ایسا کیا گیا تو لاہور کی بیٹیاں اپنا رد عمل دے دیں گی۔ یہ سب سن کر میں حیران تھا کہ ہم مسلمان ہو کر کس طرح اسلامی احکامات کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ بھئی اگر پنجاب حکومت کی تجویز میں کوئی کمی ہے تو بہتری لا نے کی بات کرو لیکن اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں پردہ کی ایسی مخالفت میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان خواتین کے لیے پردہ کا واضع حکم دیا اور اُنہیں دور جاہلیت کے زمانہ کی بے پردگی اور بنائو سنگار کر کے گھر سے باہر نکلنے سے منع فرمایا۔ کسی اینکر کو آئین پاکستان کی شق نمبر 31بھی یاد نہ آئی جس میں حکومت اور تمام متعلقہ اداروں کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ ’’پاکستان کے مسلمانوں کو، انفرادی اور اجتماعی طور پر، اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیںـ‘‘۔ اسی آئینی شق میں ریاست پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ ’’اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دیںـ‘‘۔

.
تازہ ترین