• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج پاکستان کی اس صحافی کی برسی کا دن ہے جس نے کہا تھا ’’صحافت کبھی آزاد نہیں ہوتی صحافی آزاد ہوتا ہے۔‘‘ جس نے ایک دفعہ اپنے اداریے میں لکھا تھا ’’پاکستان میں صرف ایک بات یقینی ہے کہ یہاں کچھ بھی یقینی نہیں۔‘‘ جی ہاں یہ انگریزی ماہنامے ’’نیوزلائن‘‘ کی بانی اور مدیر رضیہ بھٹی پاکستان میں تحقیقی صحافت کے گنے چنے بانیوں میں ایک تھیں۔ ایڈیٹروں کی ایڈیٹر۔ اب ایسے ایڈیٹر کہاں۔ اب تو ہر شاخ پہ اینکر بیٹھا ہے۔
کراچی کی یہ قلندر لڑکی تب رضیہ باندرے کے نام سے مشہور تھیں۔ کراچی یونیورسٹی میں شعبہ ہائے صحافت اور انگریزی کی ہونہار طالبہ۔ رضیہ نے اپنا بچپن اور جوانی کے اوائلی ایام منوڑہ کراچی میں گزارے کہ اس کے والد نیوی میں کوارٹر ماسٹر جنرل تھے۔ ایک اور لاہور کے ایسے ہی زندہ دل انسان گل حمید بھٹی سے شادی کے بعد وہ رضیہ بھٹی کہلائی۔ نڈر لیکن غیر جانبدار صحافی رضیہ بھٹی۔ اتنی غیر جانبدار کہ شادی کے بعد بحیثیت ایڈیٹر جو سب سے پہلا کام انہوں نے کیا وہ ایک جریدے میں ساتھ کام کرنے والے گل حمید بھٹی کو وہاں سے فارغ کردیا کہ ایک جگہ کام کرنا صحافت کے اصولوں کے خلاف تھا۔
رضیہ بھٹی کی خوش قسمتی یا بدقسمتی تھی کہ وہ انگریزی صحافت کی مدیرہ اور لکھاری تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ پاکستان جیسے ملک میں انگریزی زبان کے ان گنے چنے مدیروں میں سے تھیں جنہوں نے اپنے قلم کے علم اونچے رکھنے پر کئی سختیاں برداشت کیں۔ مظہر علی خان، آئی ایچ برنی، اور رضیہ بھٹی اسی قبیل کے لوگ تھے۔ وہ ٹریڈ یونینسٹ بھی نہیں تھے لیکن عوام الناس کے جاننے کاحق، چھپے ہوئے حرف کی حکمت اور اس کی عصمت میں یقین رکھتے تھے۔
انیس سو چورانوے میں واشنگٹن میں عالمی تنظیم ’’انٹرنیشنل ویمن میڈیا فائونڈیشن‘‘ نے رضیہ بھٹی کو جراتمند خاتون صحافی کے طور پر دنیا کی چند دیگر خواتین صحافیوں کے ساتھ ’’کریج ان جرنلزم ایوارڈ‘‘ دیا- اسی سال سی این این کی معروف رپورٹر کرسٹینا امانپور سمیت سات وہ خواتین صحافی بھی شامل تھیں جنہوں نے سربیا سمیت کئی تصادم والے ملکوں میں جنگی رپورٹنگ کی تھی۔ اس تنظیم نے رضیہ کو ایسی جرات مند خواتین کی صف میں کھڑے مانتے ہوئے کہا تھا’’وہ کام جو ان خواتین صحافیوں نے میدان جنگ کی رپورٹنگ کرتے ہوئے کیا وہی کام اور جرات رضیہ بھٹی نے اپنی ڈیسک پر دکھائی‘‘۔
رضیہ نے اپنی عملی صحافت کا آغاز انیس سو ساٹھ کی دہائی کے آخر میں ایک انگریزی جریدے ’’پاکستان السٹریٹیڈ ویکلی‘‘ انگریزی میگزین سے کیا اور آگے چل کر اسی گروپ نے پھر ماہنامہ ’’ہیرالڈ‘‘ جاری کیا جس کی رضیہ بھٹی پہلے نائب ایڈیٹر اور پھر ایڈیٹر مقرر ہوئی۔ مجھے اس بات پر ہمیشہ فخر رہے گا کہ میں نے رضیہ بھٹی کے زیر سایہ ان کی ادارت میں بڑے عرصے تک کام کیا۔ یقین مانیے رضیہ بھٹی اور اس کے تلے نیوزلائن دنیا میں کہیں نہیں ہوتے۔ نہ ہی وہ کہانیاں ہوتی ہیں جو صرف رضیہ بھٹی ہی چھاپا کرتی تھیں۔
جس وقت رضیہ بھٹی نے ’’ہیرالڈ‘‘ میں اپنی ٹیم کے ساتھ کام کرنا شروع کیا تو یہ ذوالفقار علی بھٹو کا زمانہ تھا اور اس وقت کی حزب مخالف اور بھٹو کے سیاسی مخالفین کو لاٹھی گولی سے برتا جا رہا تھا۔ بلوچستان میں فوجی آپریشن جاری تھا۔ ملک کی سب سے بڑی حزب مخالف پارٹی نیپ پر پابندی لگ چکی تھی۔ نیپ کی قیادت جیلوں میں بند تھی۔ لیکن نیپ کے کئی لوگ اب شیرباز مزاری اور بیگم نسیم ولی خان کی قیادت میں این ڈی پی یا نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی صورت میں جمع ہو رہے تھے۔ کراچی میں شہری آزادیوں پر قدغن کے خلاف پابندیوں کے باوجود کنونشن جلسے وغیرہ ہو رہے تھے۔ رضیہ سمیت ہیرالڈ کی خواتین ان جلسوں میں شرکت کرتیں اور انہوں نے بیگم نسیم ولی خان کا انٹرویو بھی کیا تھا۔ بیگم نسیم ولی خان سے لیکر پروفیسر غفور تک اور بلوچستان میں آپریشن تک رضیہ بھٹی کی زیر ادارت ہیرالڈ میں سب کور ہوتا۔ یہاں طارق علی سے لیکر انور پیرزادو، صادق جعفری اور امرجلیل جیسے لکھنے والے چاہے فلم و فیشن تک سب ہوتا۔
لیکن ضیاءالحق کے دنوں میں فوجی آمر کو ہیرالڈ میں کوریج نہ دینے پر مالکان کی طرف سے نئی پالیسی لائن کی مزاحمت کرتے ہوئے رضیہ بھٹی نے استعفیٰ دے دیا۔ رضیہ کے ساتھ ماسوائے ایک آدھ ساتھی کے باقی نیوز لائن کی تمام ادارتی ٹیم نے اجتماعی استعفے دئیے۔ انہی ساتھیوں کی ٹیم کے ہمراہ رضیہ بھٹی نے کراچی کے ایک ہوٹل کے چھوٹے سے دفتر سے ایک نئے انگریزی ماہنامے ’’نیوزلائن‘‘ کا آغاز کیا۔ یہ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کا بمشکل پہلا سال تھا۔ نیوز لائن کا اجرا پاکستان میں تحقیقاتی صحافت کے ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ اس میں اکثر لکھنے والوں میں آئی اے رحمان، عباس ناصر، ملیحہ لودھی، رحیم اللہ یوسف زئی، اویس توحید، غلام حسنین، عامر ضیاء، عامر میر، کمال صدیقی، شہزادہ ذوالفقار، مسعود عالم، مسعود حیدر (رضیہ کے دیرینہ دوست) بھی شامل رہے۔
نیوز لائن کا ہر ماہ یہ خاصا رہا کہ یا تو اس میں شائع ہونیوالی اسٹوری پر سنگین دھمکیاں ملتیں یا پھر ایوارڈ۔ اسی طرح نیوز لائن کا پہلا یا دوسرا پرچہ ملکی سیاست کے پیچھے منشیات اسمگلروں کے ہاتھ سے متعلق تھا جس پر ایک بدنام زمانہ عالمی اسمگلر نے پشاور کی عدالت میں مقدمہ درج کیا۔ ایک اور اسٹوری پر متحدہ کے قائد الطاف حسین نے دہلی کالونی کے جلسے میں براہ راست نیوز لائن کی مدیرہ اور اس کی ٹیم کو دھمکیاں دی تھیں۔ لیکن جون 92 میں یہ نیوزلائن ہی پہلا میڈیا تھا جس نے ایم کیو ایم کیخلاف آپریشن اور اس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف کور اسٹوری سمیت کئی اسٹوریاں شائع کیں۔
وہ کراچی سمیت سندھ میں نسلی تشدد ہو کہ ملک میں فرقہ وارانہ تشدد، مذہبی و جنسی اقلیتوں کے خلاف جبر، سندھ میں عورتوں کا غیرت کے نام پر قتل، سول و فوجی لیڈر شپ کی بد عنوانیاں، عرفان مروت ہو کہ آصف زرداری، بینظیر بھٹو ہو کہ نواز شریف، پنجاب کواپریٹو اسکینڈل ہو کہ سرے محل، جمہوریت کے خلاف سیکورٹی اور جاسوسی اداروں کی ریشہ دوانیاں، رضیہ بھٹی نے وہ چھاپنے کی جرات کی جو اور کہیں نہیں شائع ہوسکتا تھا۔ رضیہ بھٹی نے بتلایا کہ سندھ پر پہلا حق سندھیوں کا ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں۔
سندھ میں سیاسی مخالفین کے خلاف جام صادق اور مرکزی حکومتوں کی سندھ و دیگر صوبوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی لکھا تو بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے ادوار حکومت اس کی خرابیوں و ریاستی جبر پر بھی۔ 1993 میں بلوچستان میں منشیات کی عالمی اسمگلنگ اور صوبے کی سیاست کے پیچھے کن سیاستدانوں کے ہاتھ ملوث ہونے کے متعلق کی ہوئی تحقیقی کور اسٹوری شائع کرنے پر رضیہ بھٹی اور تحقیقی اسٹوری کے رپورٹروں کے خلاف ایک حکومتی وزیر کی طرف سے مقدمات قائم کیے گئے لیکن جن لوگوں کے نام مذکورہ اسٹوری میں تھے ان میں سے کئی کو2008 میں امریکی محکمہ خزانہ نے بھی اپنی فہرست میں منشیات کا اسمگلر ومطلوب ظاہر کیا۔
اسی طرح ایک دفعہ کراچی پر کور اسٹوری شائع کرنے پر بینظیر حکومت میں نیوز لائن کے پرچے پی آئی اے کی پروازوں پر بندکر دیئے گئے۔
اور سب سے بڑا بینظیر بھٹو حکومت کا نیوز لائن کے خلاف کریہہ کام یہ تھا کہ تب کے ان کے سندھ میں گورنر کمال اظفر کی سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی پر اسٹوری شائع کرنے پر رضیہ بھٹی اور مضمون نگار کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ رضیہ بھٹی کے اپارٹمنٹ پر نیم شب پولیس چھاپہ ماراگيا انہیں اور ان کے اہل خانہ کو نیند سے جگا کر ہراساں کیا گیا۔ میرا خیال ہے اس طرح کے ریاستی سلوک نے رضیہ پر کافی برا اثر ڈالا تھا جو آخر کار ان کے دماغ کی شریان پھٹنے پر منتج ہوا۔ رضیہ کے گھر پر چھاپہ اگست 1994کا واقعہ ہے اور رضیہ سولہ مارچ (آج کے دن) 1996میں 51 سال کی عمر میں فوت ہو گئیں۔ اپنے پیچھے ایک بیٹا کامل اور بیٹی سارہ چھوڑے۔ ان کےایڈٹ کئے ہوئے آخری شمارہ کی سرورق اسٹوری بھی کراچی سمیت سندھ میں ماورائے عدالت قتل سےمتعلق تھی۔
میں نے بینظیر بھٹو سے اگست2007میں ان کی آخری پریس کانفرنس میں پوچھا تھا کہ کیا وہ ان کے دور حکومت میں رضیہ بھٹی کے گھر پر ایسی کارروائیوں پر افسوس کرتی ہیں کیا وہ اس پر معافی مانگیں گی؟ تو ان کا جواب نفی میں تھا۔ رضیہ بھٹی کی موت پر انٹرنیشنل وومین میڈیا فائونڈیشن نے کہا تھا ’’اس کی موت سے پاکستان میں صحافت کا سنہری دور ختم ہوا‘‘۔

.
تازہ ترین