• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زمانہ قدیم سے خاندان کسی بھی معاشرے کی بنیادی اکائی سمجھا جاتا رہا ہے، پرامن اور مستحکم معاشرے کی اہم ترین نشانیوں میں خاندان کی مضبوطی لازم ہے، برصغیر پاک و ہندکی ایک اہم پہچان مضبوط خاندانی نظام رہی ہے، بالغ باشندوں کی شادی کروانا ہمیشہ سے سمجھدار بڑے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں، خاندان اور برادری کی روایات سے انحراف کو ناقابلِ قبول سمجھا جاتا تھا مگردورحاضر میں جہاں ہمارا معاشرہ دیگر شعبوں میں گراوٹ کا شکار ہوا وہیں شادی اورخاندانی نظام بھی شدید متاثر ہوا ہے، اس حوالے سے مختلف عوامل کارفرما ہیں جن میں مادیت پرستانہ اور خود غرضانہ رویوں کا فروغ ہے، اس کے علاوہ بھی دیگر معاشرتی خرابیاں دھیرے دھیرے ہمارے معاشرے میں سرایت کر رہی ہیں جسکی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا اعلیٰ خاندانی روایات کا علمبردارمعاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، گاؤںدیہات میں تو پھر بھی قدرے حالات بہتر ہیں مگر شہری آبادی کی صورتحال ناقابلِ ذکر ہے جہاں دولت کمانے کی دوڑ میں کسی اخلاقی اصولوں کی پاسداری نہیں کی جاتی، رشتہ جوڑنے سے قبل اپنے ذاتی مفادات کو مقدم رکھا جاتا ہے،روزگاری مسائل اور بہتر سے بہتر کی جستجو شادیوں میں تاخیر کا باعث بن رہی ہے،مختلف ریسرچ رپورٹس کے مطابق شادی کا نہ ہونا معاشرے میں فرسٹریشن کی اہم وجہ ہے، بہت سی نوجوان بچیوںکے والدین جہیز یا شادیوں کے ہوشربا اخراجات کے متحمل نہ ہونے کی وجہ سے رخصتی سے قاصر ہیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق شادی کی تقریب پر ایک سائیڈ سے کم از کم پانچ لاکھ روپے خرچہ آتا ہے جو آج کل کے معاشی حالات میں سفید پوش شہریوں کیلئے نہایت پریشان کن صورتحال ہے، ددوسری طرف نوجوان نسل کسی قسم کی قدغن نہ ہونے کی وجہ سے گناہ اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہورہی ہے جسکی روک تھام یقینی بنانا معاشرے کے باشعور طبقات کی ذمہ داری ہے لیکن یہ سب اسی صورت ممکن ہے جب خاندانی نظام کے استحکام اور شادیوں کے رحجان کے فروغ کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔دنیا بھر کے مذاہب نے اپنے پیروکاروں کو شادی کی اہمیت اور غیرازدواجی تعلقات سے گریز کرنے کی تلقین کی ہے۔ ہندو دھرم میں شادی یا ویواہ کوزندگی بھر کا بندھن قرار دیا گیا ہے، ایک دفعہ شادی ہوگئی تو پھر علیحدگی یا طلاق کی مذہبی طور پر کوئی گنجائش نہیں۔ ہندو شادی کے تین اہم ترین مقاصدمیں دھرم (فریضہ)، پرجا (اولاد) اور رتی (لطف) شامل ہیں جن میں فریضے کی ادائیگی کو اولیت دی گئی ہے، برہما ویواہ کے مطابق ایک باپ اپنی بیٹی کو اچھے کردار اور پڑھے لکھے لڑکے کو بیاہ دیتا ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جہاں غیرمسلموں کی آباد ی میں ہندو پچاس فیصد ووٹ بینک کے حامل ہیں، پاکستان کا آئین غیرمسلموں کو مکمل مذہبی آزادی کی فراہمی یقینی بناتا ہے،قیام پاکستان سے ہندو کمیونٹی کو درپیش مسائل میں سے ایک اہم ترین مسئلہ شادیوں کے حوالے سے رہا ہے، ملک میں ہندو شادی ایکٹ نہ ہونے کی بنا ہندوباشندے اپنی شادیوں کی قانونی حیثیت سے محروم رکھے جاتے رہے ہیں، یہ اہم ترین مسئلہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ پوری کمیونٹی کا تھا جسکو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان ہندو کونسل نے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی ٹھانی جو گزشتہ دس برسوں سے ہندو شادیوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کیلئے ہندو میرج سرٹیفکیٹس کا اجرا اورخاندانی نظام کو مستحکم کرنے کیلئے سالانہ بنیادوں پر اجتماعی شادیوں کی تقریبات کا انعقاد کرارہی ہے۔ اجتماعی شادیوں کی تاریخ زمانہ قدیم میں الیگزینڈر دی گریٹ سے جا ملتی ہے جب 324قبل مسیح میں الیگزینڈر نے فارس کے بادشاہ کی بیٹی سے شادی رچائی اور اسی تقریب میں لگ بھگ چالیس کے قریب دیگرعسکری افسران کی فارس کی خواتین سے شادیاں کی گئیں۔جدید عیسائیت کی تاریخ میں یونیفکیشن چرچ نے وسیع پیمانے پر اجتماعی شادیاں متعارف کروائیں، جنوبی کوریا میں 1954میں شروع ہونے والی مذہبی سماجی تحریک کو کوریا، جاپان، فلپائن اور مشرقی ایشیا کے متعدد ممالک میں خاصی پذیرائی حاصل ہے، آج کی مہذب دنیا میں اجتماعی شادیوں کا تصور پاکستان، افغانستان، چین، عرب دنیااور مغربی ممالک میں بھی پایا جاتا ہے اور اس حوالے سے مختلف خبریں میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ دنیا بھر میں اجتماعی شادیوں کے انعقاد کے کارفرما عوامل میں معاشی اور سماجی عناصر سرفہرست ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہندو شادیوں کا سالانہ انعقاد ایک ثقافتی تقریب کا رنگارنگ منظر پیش کرتا ہے جہاں لگ بھگ سو ہندو جوڑوں کو نہایت عزت و احترام سے نئی زندگی شروع کرنے پر شبھ کمامناؤں کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے، ایک مشترکہ تقریب میں زندگی کا اہم ترین دن منانے کی بنا پر شرکاء کے مابین مضبوط سماجی تعلقات بھی پروان چڑھتے ہیں،ہندو اجتماعی شادیوں کی کامیابی میں معاشرے کے مخیر ادارے بشمول پاکستان بیت المال اور ایدھی فائونڈیشن کا تعاون نہایت اہمیت کا حامل ہے،اس موقع پر میں انسانیت دوست عبدالستار ایدھی مرحوم کو بھی خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہوں گا کہ جنکی بے غرض خدمت کی بدولت ہم سب نے معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی خدمت کا درس سیکھا، ایدھی مرحوم ہر سال نہ صرف ہندو اجتماعی شادیوں کی تقریب میں بذات خود شریک ہوتے تھے بلکہ نوبیاہتا جوڑوں کو نئی زندگی کی شروعات کرنے کیلئے عملی تعاون بھی فراہم کرتے تھے۔ شادی کی کامیابی میں اقتصادی عوامل کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے پاکستان ہندو کونسل کی طرف سے غریب اور مستحق باشندوں کو رکشے اور خواتین کو سلائی مشین فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ حق حلال کی کمائی سے اپنے خاندان کا پیٹ پال سکیں۔ تعلیم کا حصول قوموں کی ترقی کیلئے ناگزیر ہوا کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ رکشوں کی تقسیم کرتے وقت امیدواروں سے یقین دہانی کروائی جاتی ہے کہ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کرروزانہ اسکول جانے والے کم ازکم آٹھ بچوں کو مفت ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کریں گے۔میرے خیال میں ایسی تقریبات کے انعقاد سے ملک کابہتر امیج بھی عالمی برادری کے سامنے پیش ہوتا ہے، ملک دشمنوں کا پروپیگنڈا زائل کرتے ہوئے غیرمسلموں کو بھی قومی ترقی کے دھارے میں شامل کرنا آسان ہوجاتا ہے اوردنیا بھر میں ایک مثبت پیغام جاتا ہے کہ پاکستان میں صرف خرابیاں ہی نہیں بلکہ غیرمسلموں کو اپنے مذہبی عقائد پر کاربند رہتے ہوئے سماجی تقریبات کے انعقاد کا حق حاصل ہے۔ ہندو میرج ایکٹ کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد اجتماعی شادیوں کی تقریبات مزید اہمیت کی حامل ہوجاتی ہیں اور اس حوالے سے پاکستان ہندو کونسل کے مستقبل کے لائحہ عمل میں اجتماعی شادیوں کا دائرہ کار پورے ملک میں پھیلانا شامل ہے تاکہ خاندانی نظام کا استحکام یقینی بناتے ہوئے ہر فرد معاشرے کی بہتری کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرسکے ۔

.
تازہ ترین