• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب کبھی ماڈل ٹائون سے میرا گزر ہوتا ہے، اور ایچ بلاک میں فیض صاحب کے گھر کے سامنے سے گزرتا ہوں تو مجھے اس رہگزر سےبھی ان کی من موہنی شاعری اور ان کی دلربا شخصیت کی خوشبو آتی ہے۔ ذرا آگے جی بلاک میں گھنے درختوں کے درمیان حفیظ جالندھری کی کوٹھی نظر آتی ہے تو ان کا لازوال قومی ترانہ اور باکمال شاعری کے علاوہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں ان کے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہوںاور وہ حسب عادت میرے لئے چائے خود بنا رہے ہیں، ایسی ہی صورتحال مال روڈ پر سے گزرتے ہوئے پیش آتی ہے جہاں مجلس ترقی ادب کا دفتر ہے، میرے قدم وہیں رک جاتے ہیںاور ان کے ایک سے بڑھ کرایک افسانے اور شاعری کے علاوہ ان کے وہ احسانات یاد آتے ہیں جو انہوں نے نئی نسل کی تربیت کے حوالے سے کئے۔ مال روڈ پر واقع پاک ٹی ہائوس میں ایک میز کے گرد بیٹھے ہوئے انتظار حسین، اعجاز بٹالوی، شہرت بخاری، انجم رومانی کی طرف دھیان جاتا ہے، الحمرا آرٹس کونسل کی کانفرنسوں میں باقاعدگی سے شریک ہونے، ادبی اور جسمانی حوالے سےبلند وبالا قامت والے عبداللہ حسین کی یاد آتی ہے۔ جب کبھی تنہائی میسر آتی ہے تو ملک کے مختلف شہروں میں رہائش پذیر وہ سب چہرے میری نظروں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں، جن کا تخلیق کردہ اعلیٰ ادب تو ہمارے درمیان موجود ہے مگر اب وہ خود ہم میں نہیں ہیں۔ جوش ملیح آبادی، جون ایلیا، شیخ ایاز، احمد فراز،پروین شاکر، شفیق الرحمان، کرنل محمد خان، ضمیر جعفری، ابن انشا، منیر نیازی، حبیب جالب اور ان کے علاوہ کتنے ہی محبوب رائٹرز کی یاد آتی ہے اور میں سوچتا ہوں کہ ان کی خالی کی ہوئی نشست پر کون بیٹھے گا۔
میرا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے صرف شخصیات یاد نہیں آتیں مجھے وہ دور بھی یاد آتا ہے جب شادیاں گلی میں ہوا کرتی تھیں اور خاندان کا سب سے معتبر فرد پلائو اور قورے کی دیگ پر بیٹھتا تھااور اس بات کا پورا دھیان رکھتا تھا کہ اب ’’مال‘‘ کی سپلائی کم یا زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس دور میں ویٹر خود اہل خانہ ہوتے تھے۔ دیگ کے قریب بھائی، کزنز اور دوست قطار میں کھڑے ہو جاتے تھے اور خوراک ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ تک ہوتی ہوئی مہمانوں تک پہنچتی تھی۔ بعض اوقات ان میں دلہن کا سابق عاشق بھی کھانا سپلائی کرنے والوں میں شامل ہوتا اور اپنے آنسو پونچھتا نظر آ جاتا تھا۔ مجھے اس دور کا معاشی اور معاشرتی منظر نامہ بھی ’’ہانٹ‘‘ کرتا ہے، سادہ لباس، سادہ غذا اور کاروں کی بجائے سواری کے لئے بسیں استعمال میں آتی تھیں ، اس معاشرے میں فرسٹریشن بہت کم تھی کیونکہ سب سفید پوش تھے اور سب ایک جیسی زندگی بسر کرتے تھے۔ مجھے گرمیوں کی شامیں یاد آتی ہیں جب گھر کے صحن میں چھڑکائو کیا جاتا تھا تاکہ تپتی ہوئی زمین کی تپش کو کچھ کم کیا جائے۔ رات چھتوں پر بسر ہوتی تھی۔ کھانا چھت پر لے جایا جاتا تھا اور گھر کی ’’مالکن‘‘ سب کی پلیٹوں میں کھانا خود ڈالتی تھی۔ مٹی کی صراحی میں پانی ہوتا تھا اور اس پر موتیے کے پھول پڑے ہوتے تھے۔ سب چھتیں ایک ساتھ ہوتی تھیں، ایک چھت کا گمان ہوتا تھا، چنانچہ لگتا تھا پورا محلہ ایک گھر میں جمع ہے۔ مجھے ایک منظر نہیں بھولتا، علی الصبح جب میں آدھا جاگتا اور آدھا سویا ہوتا مجھے ایک پرندے کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی، میں ہر بار اسے دیکھنے کی کوشش کرتا مگر مجھے وہ کبھی دکھائی نہیں دیا۔
مجھے یقین ہے کہ وہ پرندہ رحمت کا پرندہ تھا، وہ مجھے مسرت کی نوید دیتا تھا، مجھے اچھے نصیب کی دعا دیتا تھا، چنانچہ زندگی میں جب بھی مجھے کوئی خوشی ملتی ہے، مجھے وہ پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے۔ مگر یہ پرندہ نہ مجھے اس وقت دکھائی دیتا تھا اور نہ آج دکھائی دیتا ہے۔

.
تازہ ترین