• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رہ گئی غیرتِ ناہید، تان، دیپک نہ رہی!
سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے:وزیراعظم خوبصورت باتیں کر رہے ہیں مگر بہت دیر کر دی تقریباً پونے چار سال دیر آید درست آید پر گزارہ کیا اب آخری رائونڈ خوبصورت باتوں میں گزار دیں گے یہ ہے وہ خوبصورتی جس کی افادیت ہمیں ہو نہ ہو حکومت کے تو کام آئے گی، پاکستان میں حکومت سازی، حکومتی حالات سازگار بنانے کے لئے کی جاتی ہے، اگر حکومت عوام کی اصلاح احوال میں لگ جائے تو حکومت کو کون ٹھیک کرے گا، بہر صورت وطن عزیز کی مٹی میں یہ صلاحیت ہے یا نہیں ہر حکومت میں 70 برسوں سے یہ کمال موجود رہا ہے کہ مٹی پائو ڈنگ ٹپائو، دیوالی کے موقع پر ہندو برادری سے وزیراعظم نے اس قدر خوبصورت، طرحدار اور مترنم گفتگو کی کہ ان کی ساری تھکن دور ہو گئی اور کبھی ان کو اتنا فارغ البال اور ہشاش بشاش نہیں دیکھا گیا، انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ دس برس پہلے محمد رفیع کا گانا ’’بہارو پھول برسائو اس کمال مہارت سے گا سکتے تھے کہ اصل نقل میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا تھا، مگر پھر حالات نے انہیں بے سُرا کر دیا اور وہ آواز نہ رہی جس کی ہر تان دیپک ہوا کرتی تھی، اب تو بس غیرتِ ناہید ہی باقی رہ گئی ہے، جو ان کے کام آئے تو آئے قوم کے کسی کام کی نہیں البتہ، نجم سیٹھی امید سے ہیں کہ وزیراعظم کا آخری رائونڈ ترقی پسند پاکستان کی طرف پہلا قدم ہے، ہمارا ہر حکمران پسند ہوتا ہے اب اس کے ساتھ ترقی، رجعت، حسن حسب ضرورت کچھ لگا لیں حکمران کو افاقہ ہو گا، اور عوام کے لئے یہ ہے کہ افاقہ کا پہلا حرف مٹا دیں ، یہ بات حیرت افزا ہے کہ وزیراعظم ہر حال ہر روپ سروپ میں اچھے لگتے ہیں، ان کا متبسم چہرہ، راز و نیاز سے بھرپور گفتگو اس قدر جاذب ہے کہ دیکھنے والا لامحالہ پکار اٹھتا ہے یہ وزیراعظم ہیں، بلکہ پیدائشی وزیراعظم!
٭٭٭٭
تاریک خیالی سے روشن خیالی تک
پنجاب میں طالبات کے لئے حجاب لازمی، پہلے فیصلہ پھر واپس، صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن رضا گیلانی کے فیصلے کو بعد میں حکومت پنجاب نے واپس لے لیا، اور رانا ثنا نے کہا یہ وزیر کی اپنی سوچ ہے، جبکہ ردعمل دیتے ہوئے آصفہ زرداری نے کہا لڑکوں کا کیا ہو گا، غیر مسلموں کا کیا ہو گا، مزے کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم اور ن لیگی وزیر دونوں ایک ہی ٹرین میں ہیں، ایک پشاور جا رہے ہیں اور دوسرا کراچی، سعد رفیق نے ن لیگ کے لئے کیسی ٹرین بنائی ہے؟ اس کی ان کو شاباش ملنی چاہئے، ن لیگی سیاسی ٹرین ہفت عجائبات میں شمار ہو گا، یہ بھی مزے کی بات ہے کہ حجاب کو مغرب میں ذرا سا کوئی چھیڑ دے تو یہاں سب سیخ پا ہو جاتے ہیں، اور اگر ایک وزیر حجاب لازمی قرار دیدے تو اس پر شدید منفی ردعمل سامنے آتا ہے، آخر ہمارا یا ہمارے حکمرانوں کا متفقہ بیانیہ ہے کیا؟ ایک وزیر اپنی حیثیت میں چراغ گل کر رہا ہے تو وزیراعظم نیا چراغ روشن کر رہے ہیں، وزیر نے اتنے بڑے فیصلے سے پہلے وزیر اعلیٰ کو خبر تک نہ کی! بہرحال یہ فیصلہ پنجاب حکومت نے واپس لے لیا اور رانا ثناء جو ہر مرض کی غلط دوا ہیں انہوں نے فرما دیا یہ وزیر کی اپنی سوچ ہے کیا یہ پنجاب کابینہ اپنی اپنی سوچ پر چل رہی ہے؟ روشن خیالی کی آج تک کوئی لگی بندھی تعریف نہیں کی گئی، ویسے آصفہ کو بھی لڑکوں سے پوچھ کر ردعمل دینا چاہئے تھا، حکمران سیاسی فلسفے اور منطق کے مضامین میں نالائق ہوتے جا رہے ہیں، اپنے پچھواڑے پیپل کی پییپلیاں کھا لیتے تو چودہ طبق روشن ہو جاتے، اور یہ روشن خیالی کا اظہار یا نفاذ اتنا تاخیر سے نہ ہوتا مہتاب اکبر راشدی واحد پاکستانی ہیں جو صحیح معنوں میں روشن خیال چلی آ رہی ہیں ان کا یہ کہنا کہ حجاب کا فروغ ملک کے لئے جگ ہنسائی کا باعث بنے گا، پاکستان میں عام غریب عورت کے ساتھ آئے دن جو ہو رہا ہے وہ تو گویا پاکستان کے لئے عزت افزائی کا باعث ہے!
٭٭٭٭
شتر مرغ پالیسی سے شتر مرغ گوشت تک
شتر مرغ پالیسی ہی کی برکات ہیں کہ کسی نے کہہ دیا شتر مرغ کا گوشت، کولیسٹرول کو کنٹرول کرنے میں تیر بہدف ہے اور حکومت پنجاب نے زور شور سے اس کی فارمنگ کو پروموٹ کرنا شروع کر دیا، جبکہ سندھ حکومت نے شتر مرغ فارمنگ میں کوئی دلچسپی نہیں لی، کولیسٹرول میں اضافے کا باعث شتر مرغ پالیسیاں بنتی ہیں، اور شتر مرغ بہ نفس نفیس اس کا علاج ہے، گویا ایک نظریاتی شتر مرغ ہوتا ہے، اور ایک وہ جو ایک جانور ہے کبھی اڑتا ہے کبھی چلتا ہے، اور دل کے مریضوں کو اس کا گوشت افاقہ دیتا ہے، وزیر اعلیٰ پنجاب نے دیر نہیں لگائی اور محکمہ لائیو اسٹاک کو ٹاسک دے دیا کہ اس کی فارمنگ کرے، اب پنجاب شتر مرغ فارمنگ عروج پر ہے اور سنا ہے کہ اس کے گوشت کو بیچنے کے لئے مراکز بھی قائم کر دیئے گئے ہیں، حکومت پنجاب ایک اشتہار دے کہ شتر مرغ گوشت کہاں کہاں سے کس ریٹ پر دستیاب ہو گا، تاکہ مردم شماری کولیسٹرول فری فضا میں ہو، شتر ڈبل حلال ہے، ایک تو شتر اور دوسرے مرغ ہونے کے حوالے سے، کیونکہ اونٹ اور مرغ دونوں حلال ہیں اور اس کے حسین امتزاج کا نام شتر مرغ ہے، ہمارے ہاں شتر مرغ پالیسی پہلے اختیار کی گئی اور شتر مرغ خوری بعد میں متعارف کی جا رہی ہے، شتر مرغ کے گوشت کی عام فراہمی سے گدھا خوری میں نمایاں کمی آئے گی، مگر پالیسی سے بدستور گڈ گورننس کو دھچکے لگتے رہیں گے اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس کے گوشت میں بیک وقت مرغ اور اونٹ کے گوشت کا مزا آئے گا، ہمیں معلوم نہیں کہ کسی اور ملک نے بھی شتر مرغ فارمنگ شروع کی ہے یا نہیں لیکن حکومت پنجاب کو شتر مرغ پالیسی چھپانے کے لئے شتر مرغ گوشت خاصا فائدہ پہنچائے گا۔
٭٭٭٭
انوکھی لاڈلی بات!
....Oعمران خان:حکومت کی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوں گے،
حکومت یہی تو چاہتی ہے، کیونکہ مرعوب ہو کر آپ ضرور کچھ کریں گے۔
....Oعبدالعلیم:حکومت4برسوں سے وزیر خارجہ کے بغیر چل رہی ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی وزیر نہ ہو تو بھی حکومت چل سکتی ہے، وزراء تو بس زیب داستاں ہیں، داستاں نہیں!
....Oمحکمہ تعلیم نے اپنی انوکھی پالیسیوں کی وجہ سے لاہور کے 70فیصد اساتذہ کو غیر تدریسی فرائض میں مصروف کر دیا۔
ہمارے ہاں استاد ہر فن استاد ہوتا ہے اس لئے اس سے کوئی بھی کام لیا جا سکتا ہے۔ محکمہ تعلیم صرف اساتذہ کو ریگولیٹ کرتا رہتا ہے، اور اساتذہ میں یہ گنجائش پیدا کر دیتا ہے کہ وہ فور ویل ڈرائیو بن جاتے ہیں یہ حرمت اساتذہ کے ضمن میں محکمے کا انتہائی محکم قدم ہے، تعلیم عام ہو نہ ہو استاد تو عام ہو جائے گا۔

.
تازہ ترین