• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے حوالے سے یہ ایک اچھی اور مثبت خبر ہے کہ بالآخر دونوں ممالک کے منتخب عوامی نمائندے اور سرکاری حکام نے فیصلہ کیا ہے کہ دونوں ممالک کی سرحدوں پر ہونے والی پرچم کشائی کی تقریب ’’ نامناسب‘‘ اور ’’غیر موزوں‘‘ ہے جس کے ذریعے ’’نفرت‘‘ اور ’’ جنگی جنون‘‘ کا تاثر ملتا ہے۔اور یہ ایسا عمل ہے جس کے ذریعے ددنوں ملکوں کے عوام اپنی حب الوطنی سے زیادہ ایک دوسرے کے خلاف دشمنی کا اظہار کرتے ہیں۔ جو کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ یہ تقریب اب ایک ایسی عوامی تقریب کی شکل اختیار کر چکی ہے جسے دیکھنے کیلئے روزانہ دونوں اطراف سے سینکڑوں افراد شریک ہوتے ہیں۔ اس میں خصوصی طور پر تربیت یافتہ رینجرز اور بارڈر سیکورٹی فورس کے اہلکار حصّہ لیتے ہیں۔ جنہیں نہ صرف غصّے اور نفرت کی خصوصی تربیت دی جاتی ہے بلکہ چہرے کو زیادہ سے زیادہ ’’ جارحانہ ‘‘ بنانے کے لئے داڑھی اور مونچھوں کی مد میں خصوصی الائونس بھی دئیے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کی طرف غصیلی آنکھوں سے دیکھنے اور زمین پر زور زور سے پائوں مارنے کے عمل میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے بارڈر پر ہر شام دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا میدان برپا ہوتاہے جبکہ دونوں اطراف کے معصوم اور سیدھے سادے عوام نفرت کے اس مظاہرے پر دل کھول کر تالیاں بجاتے ہوئے نہ صرف اپنے ملک کے حق میں نعرے لگاتے ہیں بلکہ بعض اوقات دوسرے ملک کے بارے میں نازیبا کلمات بھی کہتے ہیں۔ واہگہ بارڈر پر ہندوستانی سرحدی علاقے اٹاری میں تو اس نفرت انگیز تقریب کی ویڈیوز بھی فروخت ہوتی ہیں۔ جنہیں بعد میں ہندوستان کے دوسرے علاقوں کے لوگ بھی دیکھتے ہیں ۔ یوں نفرت کا یہ پیغام سرحدی علاقوں تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ دور دور تک پھیل جاتا ہے۔ جو پاک بھارت تعلّقات کو جو پہلے ہی ہمیشہ سے کشیدہ ہیں، اسکی کشیدگی میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو اس عمل کے کرتا دھرتا ہیں نجانے اس سے کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ نفرت کا یہ اظہار کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں۔ نہ ہی یہ کسی مسئلے کا حل ہے نفرت اور جنگی جنون ہر قوم کے لئے تباہ کن ہے۔ کیونکہ یہ قوموں کی ترقی کا دشمن ہے جنگی جنون سے جہاں مسائل کے حل میں پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اور ملکی بجٹ کا بڑا حصّہ جنگی سازوسامان کی تیاری میں صرف ہوتا ہے ۔ جو سراسر غیر ترقیاتی کام ہے بلکہ عوام کے بنیادی مسائل کے حل میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ یہی رقم تعلیم ، صحت ، روزگار اور اس جیسے عوامی ضروریات کے مسائل پر خرچ ہو تو دونوں ملکوں کے عوام کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس کا ایک اور سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ عمل نفرت اور جنگی جنون کا وہ کلچر پیدا کرنے کا بھی ایک حصّہ ہے جس کا خمیازہ ہمیں اندرونِ ملک ’’ تشدّد پسند ‘‘ گروہوں کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے ۔ جن کی اساس ہی دونوں ملکوں کے درمیان نفرت اور جنگ و جدل پر مبنی ہے۔ آج کی مہذب دنیا میںجہاں پولیس اور امن و امان قائم رکھنے والے دیگر اداروں کے سرِ عام اسلحے کی نمائش کو بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس قسم کا عمل نہ صرف نامناسب اور غیر مہذب بلکہ انتہائی افسوسناک بھی ہے۔
بارڈر پر اس قسم کی نامناسب تقریب کے بارے میں سنجیدہ افراد نے پہلے بھی کئی مرتبہ لب کشائی کی جرا ت کی ہے لیکن ’’ جنگی جنون‘‘ کے خواہشمند افراد اور گروہ انہیں ’’ غدّار ‘‘ قرار دے دیتے ہیں۔ راقم نے ایک مرتبہ پہلے بھی اس نامناسب تقریب کو ختم کرنے کے لئے ایک کالم لکھّا تھا جس پر اسے غدّار قرار دیکر دھمکیاں دی گئیں ۔ میں آج تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ اس قسم کی منفی تقریبات سے وطن کی کون سی خدمت کی جا سکتی ہے۔ جس سے نفرت اور جنگی جنون کو فروغ ملتا ہے۔ حالانکہ ہماری تاریخ اس معاملے میں انتہائی تکلیف دہ واقعات سے بھری پڑی ہے ہم بھارت سے چار جنگیں لڑچکے ہیں۔ لیکن اس کاکیا نتیجہ نکلا؟ مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ میں تو اسے ہی محب ِ وطن اور انسان دوست سمجھتا ہوں جو انسانی مسائل کو بڑھانے کی بجائے کم کرنے کی حکمت عملی پر یقین رکھتا ہو۔ اور مسائل کو پُر امن طریقے سے حل کرنے کا خواہشمند ہو کیونکہ جنگیں مسائل کا حل نہیں بذاتِ خود اس کی بڑی وجہ ہیں۔
دنیا کی تاریخ ہمسایہ ممالک کی ایک دوسرے کے ساتھ نفرت اور جنگ و جدل سے بھری پڑی ہے۔ لیکن انہیں بالآخر نفرت اور جنگ و جدل کا راستہ چھوڑ کر امن کی طرف آنا پڑا تو نہ صرف ان کے مسائل حل ہوئے بلکہ وہ شاندار ترقی کے راستے پر بھی گامزن ہو ۔ فرانس اور انگلینڈ کے درمیان تقریباً ایک سو سال تک دشمنی رہی اور کئی جنگیں ہوئیں جن میں نپولین بونا پارٹ کو کئی فتوحات کے بعد بالآخر واٹر لو کے مقام پر شکست ہو گئی۔ جہاں سے آجکل زیرِ سمندر ٹرین پیرس جاتی ہے اور کئی برطانوی دانشور اس مقام کا نام بدلنے کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں تاکہ واٹر لو فرانسیسیوں کے لئے مقامِ شکست ہونے کی وجہ سے شرمندگی کا باعث نہ بنے ۔ اسی طرح پورا یورپ ایک وقت میںایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں تھا لیکن آج اکثر ممالک یورپی یونین میں شامل ہیں جن کے درمیان ویزے کی پابندی بھی ختم کردی گئی ہے۔ ایک دن وہ ضرور آئے گا جب بھارت اور پاکستان بھی دوستی کے بندھن میں بندھ جائیں گے۔ شاید اس وقت کی نسلیں ہمیں غیر مہذب ہونے کا طعنہ دیں کہ ہم یوں سرعام ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ یہ فیصلہ گو دیر سے ہوا ہے لیکن ’’ دیر آید درست آید‘‘ کے مطابق ہمیں اس کا خیر مقدم کرنا چاہئے کہ جب ہمسائے تبدیل نہیں ہو سکتے تو ان کے درمیان دشمنی کے بجائے دوستی ہی ہونی چاہئے اور یہ قدم دوستی کی طرف ایک بڑا قدم ہوگا۔

.
تازہ ترین