برطانیہ کی کوششوں سے پاک افغان کشیدگی دور کرنے کے لئے لندن میں پاکستان کے مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز اور افغان مشیر قومی سلامتی حنیف آتمر کے درمیان مذاکرات دہشت گردی کے خلاف دونوں ملکوں کی مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے کی سمت میں ایک مثبت پیش رفت ہے۔ لاہور اور سیہون شریف میں خود کش حملوں جن میں افغانستان سے آئے ہوئے دہشت گرد ملوث پائے گئے تھے اور پاکستان کی جانب سے پاک افغان سرحد بند کرنے کے بعد دونوں ملکوں میں یہ پہلا باقاعدہ رابطہ ہے جسے ممکن بنانے میں برطانوی مشیر قومی سلامتی اور پاکستان میں برطانیہ کے سابق ہائی کمشنر سرمارک لائل گرانٹ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اگرچہ بدھ کو ہونے والی بات چیت کے بارے میں برطانوی دفتر خارجہ مہر بہ لب ہے لیکن غیر سرکاری ذرائع پر امید ہیں کہ اس کے نتیجے میں باہمی اعتماد کی فضا بحال اور تلخیاں دور کرنے میں مدد ملے گی حقیقت یہ ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں شکست خوردہ دہشت گرد افغانستان میں پناہ لئے ہوئے ہیں انہیں القاعدہ، داعش، افغان طالبان کے علاوہ بھارت کی سرپرستی میں خود کابل حکومت کی پشت پناہی بھی حاصل ہے وہ کھلی اور طویل سرحد سے فائدہ اٹھا کر پاکستان میں داخل ہو جاتے ہیں اور سرحدی چیک پوسٹوں کے علاوہ اندرون ملک پبلک مقامات کو نشانہ بناتے ہیں انہیں روکنے کے لئے پاکستان کو سرحد بند کرنا پڑی مگر اس کے نتیجے میں عام لوگوں کی آمد و رفت بند ہونے کے علاوہ دونوں ملکوں کے تاجروں کو کروڑوں ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے کیونکہ ان کا مال راستے میں رک گیا ہے اور گل سڑ رہا ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ لندن مذاکرات کے نتیجے میں کابل حکومت بھارت کے دبائو سے نکل کر بارڈر مینجمنٹ کے لئے پاکستان سے تعاون کرے گی تا کہ دہشت گردوں کے خلاف جو دونوں ملکوں کے مشترکہ دشمن ہیں فیصلہ کن کارروائی کی جا سکے۔
.