• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہو سکتا ہے کہ جس روز یہ کالم شائع ہو اسی دن عدالت عظمیٰ پاناما کیس میں اپنا فیصلہ سنا دے۔ وزیراعظم نوازشریف کے وکیل مخدوم علی خان نے بجا طور پر کہا ہے کہ یا تو اللہ تعالیٰ یا پانچ جج صاحبان جانتے ہیں کہ فیصلے کا اعلان کب ہوگا۔ تاہم اٹارنی جنرل اشتراوصاف علی خان کا خیال ہے کہ فیصلہ اگلے ہفتے آ جائے گا۔ تین ہفتے قبل سپریم کورٹ نے اس کیس میں فیصلہ محفوظ کیا تھا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ جو اس بنچ کے سربراہ تھے نے کہا تھا کہ ایسے مقدمے میں شارٹ آرڈر جاری نہیں کیا جا سکتا اور ججوں کو 26 ہزار صفحات پر مشتمل کاغذات کا ایک ایک لفظ پڑھنا ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی آبزرویشن دی تھی کہ اگر ایک ہی معیار کے مطابق دونوں اطراف (یعنی نون لیگ اور پی ٹی آئی) کے پیش کئے ہوئے کاغذات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں سے 99.99 فیصد مسترد ہو جائیں گے۔ نہیں معلوم کہ فیصلہ کیا ہوگا۔ تاہم پاکستان میں ہرفرد کو اس کا شدت سے انتظار ہے۔سیاسی جماعتیں جو اس مقدمے میں پارٹی تھیں یا نہیں تھیں بھی بڑی بے چینی سے منتظر ہیں۔ ان میں سے کچھ پارٹیاں اور بہت سے ٹی وی چینلوں کے اینکرز اپنے اپنے انداز میں فیصلہ سنا رہے ہیں جو کہ یقیناً بڑی غیر اخلاقی، غیر آئینی اور غیر قانونی بات ہے۔ پہلے دن سے ہی یہ مقدمہ سیاسی نوعیت کا ہے اور اس پر ہر روز بہت سیاست بھی کی گئی۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلی بار ہی ہوا ہو کہ جب عدالت میں 26 بار اس کیس کی سماعت ہوئی تو روزانہ کی بنیاد پر عدالتی کارروائی پر بہت سے تبصرے کئے گئے مگر ججوں نے کسی کو بھی نہیں روکا کہ وہ ایسا نہ کریں کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کسی کی آزادی رائے پر کوئی قدغن لگایا جائے۔ بلاشبہ اس آزادی کا بہت بے جا استعمال کیا گیا اور ہر طرح سے کوشش کی گئی کہ عدالت کی کارروائی پر اثر انداز ہواجاسکے۔ کچھ ٹی وی چینلز نے تو بے شمار پروگرام بار بار نشرکیے تاکہ فیصلہ ان کی مرضی کے مطابق ہو سکے۔
وزیراعظم سے جب پانامہ کیس میں آنے والے فیصلے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے نوکمنٹس کہہ دیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ محفوظ کئے گئے فیصلے پر قیاس آرائی عدالتی احترام میں خلل اور نامناسب ہے پتہ نہیں میڈیا پر کیا کچھ چل جاتا ہے پانامہ کیس کا جو بھی فیصلہ ہوگا سب کے سامنے آئے گا ہماری توجہ ترقی اور خوشحالی پر مرکوز ہے۔ جب عدالت ایک لمبے عرصے تک اس کیس کی سماعت کرتی رہی تو بھی وزیراعظم نے اس کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا۔ یہ بڑی مناسب بات ہے چیف ایگزیکٹو کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ عدالتی کارروائی پر کسی قسم کی بھی کوئی بات کرے چاہے یہ اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہورہی ہو۔ تاہم نون لیگ کے بہت سے وزراء نہ صرف عدالت میں موجود ہوتے تھے بلکہ اس کی کارروائی پر بھی تبصرے کرتے تھے۔ یہ ان کی مجبوری تھی کیونکہ بقول ان کے انہوں نے پی ٹی آئی کے رہنمائوں کے حملوں کا جواب دینا ہوتا تھا۔ ایک نہیں بلکہ کئی بار انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ پی ٹی آئی اس عادت کو ترک کر دے تو وہ بھی اس کیلئے تیار ہیں مگر پی ٹی آئی نے یہ پیشکش سختی سے مسترد کر دی تھی اس کے بعد پھر چل سو چل۔ ہر پارٹی عدالتی کارروائی پر کھل کر بولتی رہی یہاں تک کہ ایک دن میں دو دو پریس کانفرنسیں بھی کی جاتی تھیں۔ یہ تو تھی پریکٹس جب عدالت میں یہ مقدمہ سنا جارہا تھا۔ جب فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تو اس کے بعد بھی اپنی اپنی مرضی سے ’’فیصلہ‘‘ سنایا جارہا ہے۔
پی پی پی کے نامی گرامی رہنما اور وکیل اعتزاز احسن بڑے بے چین ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہر صورت وزیراعظم کو عدالت سے سزا ہو چاہے کیس میں جان ہو یا نہ ہو۔ تقریباً ہر روز وہ اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں جن میں ان کی سرتوڑ کوشش ہے کہ ججوں کی رائے پر اثر انداز ہوا جائے۔ کل ہی انہوں نے کہا ہے کہ وزیراعظم کو آسانی سے سزا نہیں ہوسکتی مگر کلین چٹ بھی نہیں ملے گی،یہ کہ عدالت نے نرم ہاتھ رکھا اسے نوازشریف کو طلب کرنا چاہئے تھا اور اس کیس میں فیصلے میں تاخیر کا جواز نہیں ہے۔ جب کئی ماہ قبل چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ وزیراعظم کے خلاف پانامہ کیس سپریم کورٹ میں لے جارہے ہیں تو اعتزاز احسن نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ ایسا نہ کریں انہوں نے ایسا کیوں کیا صرف وہ ہی جانتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کا خیال ہو کہ عمران خان کو کیس کی نوعیت کی وجہ سے اپنی مرضی کا فیصلہ نہیں مل سکے گا۔ اعتزاز احسن تواتر سے مقدمے کی کارروائی پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے اور فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد بھی اس پر بولے جارہے ہیں مگر نہ تو انہوں نے اور نہ ہی ان کی جماعت نے یہ جرات کی کہ وہ بھی عدالت عظمیٰ میں عمران خان کے ساتھ پٹیشن دائر کریں۔ اعتزاز احسن تو چونکہ بہت بڑے وکیل ہیں اور ان کی پیشہ ورانہ مہارت سے کسی کو انکار نہیں ہے انہیں تو چاہئے تھا کہ اگر انہوں نے یا ان کی جماعت نے یہ پٹیشن دائر نہیں کی تو وہ کم از کم عمران خان کے یا کسی دوسرے پٹیشنر کے وکیل ہی بن جاتے۔ شیخ رشید احمد نے تو رٹ لگا رکھی ہے کہ عدالت عظمیٰ سے ’’تابوت‘‘ نکلیں گے کبھی وہ کہتے ہیں کہ یہ تابوت کرپشن کے ہوں گے اور کبھی کہتے ہیں کہ یہ سیاسی تابوت ہوں گے۔ ان کی بھی دلی خواہش ہے کہ وزیراعظم اس فیصلے کے نتیجے میں گھر چلے جائیں۔ مگر ہر خواہش کا پورا ہونا ضروری نہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنما بھی بڑی شدت سے منتظر ہیں کہ کسی طرح فیصلے سے وزیراعظم کو جلد از جلد نقصان پہنچے اور ان کی چاندی ہو جائے۔
پی پی پی میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ نوازشریف حکومت کے خلاف کوئی بڑی ایجی ٹیشن شروع کر کے اس کیلئے کوئی بہت زیادہ مشکلات پیدا کرسکتی مگر بیان بازی کی حد تک اس نے کبھی بھی حکومت کو چین سے نہیں رہنے دیا۔ تاہم پی ٹی آئی نے تو ہر طرح سے کوشش کی کہ وہ وزیراعظم کو چلتا کرے۔ یہ اس کا کبھی مسئلہ نہیں رہا کہ طریقہ قانونی ہو یا غیر قانونی بلکہ اس نے تو ہمیشہ کوشش کی کہ کوئی غیر آئینی کام ہو جائے اور حکومت سے چھٹکارا مل جائے۔ چاہے 2014ء والا دھرنا تھا یا رائے ونڈ کے قریب جلسہ یا 2016ء والا اسلام آباد کا ناکام لاک ڈائون پی ٹی آئی نے ہر حربہ آزمایا مگر کامیاب نہ ہوسکی۔ مسلسل ناکامیوں کے بعد اس نے سپریم کورٹ کا رخ کیا کہ شاید عدالت ہی وہ کام کر دے جو کہ وہ گزشتہ چار سالوں کے دوران گلیوں اور سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اسی وجہ سے ہر لحاظ سے پاناما کیس ایک سیاسی مقدمہ رہا۔ اس میں فیصلے سے نون لیگ اور پی ٹی آئی کو کیا سیاسی فائدہ یا نقصان ہوگا یہ تو اس وقت ہی پتہ چلے گا جب اس کا اعلان ہوجائے گا۔ فی الحال تو ہرسیاسی رہنما اور جماعت اپنا سانس روکے بیٹھےہیں کہ فیصلہ کیا ہوگا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی بھرپور انداز میں وزیراعظم پر اس کیس کے بارے میں حملے کیے ہیں اگرچہ ان کے وکیل کی عدالت میں کارکردگی انتہائی ناقص تھی اب دیکھنا یہ ہے کہ جماعت کو اس فیصلے سے کیا ملے گا۔

.
تازہ ترین