• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کبھی کبھی مجھ پر غنودگی سی طاری ہوجاتی ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ یہ طاری اس وقت ہوتی ہے جب میں صبح اپنے مقررہ وقت سے بہت پہلے جاگ جاتا ہوں مگر کم نیند کے باوجود خود کو بے انتہا تروتازہ محسوس کرتا ہوں تاہم اس تروتازگی کی عمر صرف دو گھنٹے ہوتی ہے۔ اس کے بعد میرا سارا دن غنودگی میں گزرتا ہے۔ میں اس وقت اسی غنودگی کی کیفیت میں ہوں کیونکہ آج میں وقت سے بہت پہلے جاگ گیا تھا۔
یہ غنودگی بھی عجیب چیز ہے انسان نہ جاگ رہا ہوتا ہے اور نہ سویا ہوا۔ کوئی کام کاج کرنے کو جی نہیں چاہتا اگر تو یہ کیفیت
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے
والی کیفیت ہو تو سبحان اللہ کہ یہ تو ڈھنگ کی غنودگی ہوئی نا مگر میں جس کیفیت کا ذکر کررہا ہوں یہ غنودگی یبوست کی ایک قسم ہے اور یبوست زدہ لوگ مجھے بہت برے لگتے ہیں چنانچہ میں اس وقت خود کو بہت برا لگ رہا ہوں۔ انسان یا سوئے یا جاگے یہ تو ہیجڑا قسم کی کیفیت ہےیعنی نہ مرد نہ عورت یبوستی کی ایک قسم اس کے علاوہ بھی ہے اور وہ بیٹھے بیٹھے سوجانا ہے۔ میں نے ایسے کئی لوگ دیکھے ہیں جو باتیں کرتے کرتے سوجاتے ہیں اور پھر درمیان میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتے ہیں اور دوبارہ شریک گفتگو ہوجاتے ہیں۔ ایک دوست ٹی وی دیکھنے کا بہت شوقین ہے لیکن اگر وہ سارا دن بھی ٹی وی کے سامنے بیٹھا رہے تو ان چوبیس گھنٹوں میں وہ صرف تین چار گھنٹے جاگ کر ٹی وی دیکھتا ہے جو وہ وقفے وقفے میں دیکھ پاتا ہے، باقی بیس گھنٹے وہ قیلولہ کررہا ہوتا ہے۔ میرے ایک شاعر دوست تھے جو ٹی وی کے مشاعروں میں بیٹھے بیٹھے سوجاتے تھے، اس دوران پروڈیوسر کی کوشش ہوتی تھی کہ کیمرہ ا ن پر نہ جائے مگر جب وہ خراٹے لینے لگتے اور جو شاعر کلام سنا رہا ہوتا ناظرین کو اس کے کلام کی بجائے ان کے خراٹے سنائی دینے لگتے تو ان کے برابر میں بیٹھا ہوا شاعر ان کے کاندھے ہلا کر انہیں جگا دیتا تھا۔ ایک دفعہ تو میں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ دوستوں کی محفل میں وہ بیٹھے بیٹھے سوگئے ہیں اور پھر اچانک ان کے خوفناک خراٹے سنائی دینے لگتے ہیں۔ ان خراٹوں کا شور اتنا تھا کہ اس شور کی وجہ سے وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور اس پریشانی کا عالم میں انہوں نے مجھ سے پوچھا ’’کیا ہوا ،کیا ہوا؟‘‘
آپ یقیناً سمجھ رہے ہوں گے کہ میں مبالغے سے کام لے رہا ہوں۔ آپ ان سب باتوں کو میرا بیان حلفی سمجھیں جو میں نے ابھی تک کی ہیں اور جو میں کرنے والا ہوں ، میرے ایک اخبار نویس دوست بھی اس ’’بیماری‘‘ میں مبتلا تھے ، وہ دفتر میں بیٹھے بیٹھے سوجاتے اور خوفناک خراٹے بلکہ فراٹے تھے ۔ ایک دن کسی دل جلے نے چیف ایڈیٹر سے شکایت کی کہ ان صاحب کے خراٹے ان کے کام میں خلل ڈالنے کا باعث بنتے ہیں۔ چیف ایڈیٹر نے انٹر کام پر ان سے بات کی اور کہا کہ ان کے کولیگ بتاتے ہیں کہ آپ دفتر میں سوئے رہتے ہیں ، کیوں نا آپ کو نیند پوری کرنے کے لئے ملازمت سے فارغ کردیا جائے۔ یہ سن کر انہوں نے کلمے کی قسم کھائی اور چشم دید گواہ کا بیان ہے کہ اس کے ساتھ انہوں نے کانوں کو بھی ہاتھ لگایا اور کہا’’سر آپ کو کسی نے غلط اطلاع دی ہے، میں تو کام کے دوران پلک بھی نہیں جھپکتا، چونکہ میں اپنے دفتر میں سب سے زیادہ کام کرتا ہوں اس لئے یہ ہڈ حرام مجھ سے خار کھاتے ہیں۔ سر دفتر میں سونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خر خر خر ،خر خر خر یعنی حضرت گفتگو کے درمیان سو گئے تھے۔ان کی اس عادت بلکہ ان کے کمال فن کا ایک گواہ میں ہوں، اس واقعہ کو آپ اس کی ’’اخیر‘‘ ہی سمجھیں اور وہ یہ کہ ایک دن میں مال روڈ پر چہل قدمی کررہا تھا(یہ بھلے وقتوں کی بات ہے ، جب لوگ مال روڈ پر چہل قدمی کرتے تھے) کہ اچانک میری نظر ان پر پڑی وہ موٹر سائیکل چلا رہے تھے، کم از کم جب میری نظر ان پر پڑی بخدا وہ سورہے تھے۔
اور آخر میں قارئین سے درخواست ہے کہ یہ کالم میں نے جیسے تیسے غنودگی کے عالم میں لکھا ہے ، لہٰذا بوریت محسوس ہو تو مجھے میری غنودگی کا مارجن ضرور دیں۔ اس کے علاوہ بھی کوئی خامی ہو تو اس پر بھی معذرت،کیونکہ میں نے اپنے غنودگی ہی کے کالم میں لکھے ہوئے کالم میں ایک پھٹیچر والی نظم ناصر بشیر کو الاٹ کردی تھی جبکہ یہ دلچسپ نظم ڈاکٹر حامد عتیق کی تھی۔ایک معذرت اور کہ میں بھول گیا تھا کہ سوشل میڈیا دراصل اینٹی سوشل میڈیا ہے، میں نے اس میں ریحام خان سے منسوب ایک ٹویٹ پڑھا جو عمران خان کے حوالے سے تھا جبکہ یہ ٹویٹ ریحام کا نہیں کسی دھوکے باز کا تھا جس نے ریحام خان کے نام سے جعلی اکائونٹ بنا رکھا تھا۔ اب اگر آپ اجازت دیں تو میں ہوش و حواس میں رہنے کی اداکاری ختم کرکے ایک بار پھر مکمل غنودگی کے مزے لے لوں؟

.
تازہ ترین