• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیشن ہر زمانے میں زیر بحث رہا ہے، نوجوان نسل دیر نہیں کرتی نئے ڈیزائن اختیار کرنے اور موسم کی نرمی گرمی کو ذہن میں رکھے بغیر، آسکر ایوارڈ کی تصویروں کو لیکر خاص طور پر ہمارے ملک کی بچیاں فوراً درزی کے پاس پہنچ جاتی ہیں، مجھے یا کسی اور کو بھی میری عمر کے شخص کو حق نہیں پہنچتا کہ معترض ہوں، ہم نے بھی جوانی میں ہر طرح کے فیشن کئے ہیں، مغرب کے زیر اثر نہیں، وقت، ضرورت اور ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے، مغرب میں 18؍سال سے بڑی عمر کی لڑکی یا لڑکا ہو انہیں اپنی ذمہ داریاں اٹھانی پڑتی ہیں، بچے پڑھتے بھی ہیں اور شام کے وقت اپنی فیس کی ادائیگی کیلئے کام بھی کرتے ہیں، وہ یعنی مغرب کے بچے، ہماری بچیوں کی طرح ہر شادی اور ہر منگنی یا سالگرہ پر نئے کپڑے نہیں بناتے، وہ محدود ذرائع کے مطابق گرمی اور سردیوں کیلئے الگ الگ کپڑے بناتے ہیں، اپنا ناشتہ اور کھانا بھی خود بناتے، صفائی اور کپڑوں کی واشنگ بھی خود ہی کرتے ہیں جبکہ ہمارے یہاں ایک عورت کپڑے دھونے، ایک استری کرنے، ایک صفائی کرنے اور ایک کھانا بنانے کیلئے آتی ہے، اب تو کام کرنے والی خواتین بھی ہوشیار ہوگئی ہیں، وہ بھی ایک کام کے پیسے طے کرکے کام کرنے آتی ہیں، ہے بھی ٹھیک، پہلے تو اترن اور بچا ہوا کھانا دے کر مہینے بھر تک کام لیا جاتا تھا، یہ الگ بات کہ گھر میں کام کرنے والی خواتین میں سے بیشتر کے مرد نکمے یا منشیات کے عادی ہوتے ہیں، اب یہ خواتین ایک گھر میں نہیں، پانچ چھ گھروں میں ایک کام کرتی ہیں، سب جگہوں سے پیسے کمانے کے علاوہ زیادہ تر خواتین بچوں کو پڑھانے اور پانچ سال کی عمر تک ٹیکے لگوانے کی اہمیت سے بھی آگاہ ہیں، مگر ان کے مرد، یا تو چرسی یا بیمار بنے پھرتے ہیں۔
اس پر مستزاد، ہمارے دفتروں میں بہت سے افسران، دفتر آکر ناشتہ کرتے ہیں، بڑے گھر کی بیوی لاتے ہیں، بیگم سو رہی ہوتی ہیں وہ دفتر چلانے کے نام پر اخبارات پڑھتے اور چائے پیتے جاتے ہیں، شام کو کسی کھانے پرجانا ہو تو بیگم دو گھنٹے میں تیار ہوتی ہیں، زندگی یونہی گزر جاتی ہے۔
مغرب میں دفاتر ساڑھے سات بجے کھلتے ہیں، سب لوگ پہلے بس کے ذریعے ٹرین ٹرمینل تک پہنچتے ہیں، ٹرین سے اتر کر پیدل چل کر دفتر پہنچتے ہیں، خواتین اس سارے راستے کو فلیٹ جوتے پہن کر طے کرتی ہیں، دفتر پہنچ کر اونچی ایڑی کے جوتے پہن لیتی ہیں، ساڑھے بارہ بجے آدھے گھنٹے میں لنچ ایسے کرتی ہیں کہ گھر کا سودا بھی خریدتی ہیں اور ہاتھ میں لئے سینڈوچ بھی کھاتی جاتی ہیں، شام کو واپسی کا بھی یہی طریقہ ہوتا ہے، جن لوگوں کے بچے ہوں، اس میں بھی ماں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ چھوٹے بچوں کو بچوں کی نگہداشت کے ادارے میں چھوڑتی ہے اور واپسی پر وہاں سے اٹھا لیتی ہے، ہفتے کے پانچ دنوں میں عورت اور مرد کے یہی اوقات کار اور اسی طرح سے مصروفیت رہتے ہیں، البتہ چھٹی کے دو دنوں میں بہت سے لوگ لمبی سیر، دریا یا سمندر کے کنارے چلے جاتے ہیں، مزے کی بات یہ ہے کہ ان دو دنوں میں پیٹرول ہو کہ ہوٹلز ان کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں، ہمارے ملک کی طرح نہیں کہ بس شیو بھی نہیں کیا، بستر میں پڑے رہے اور چھٹی کا دن گزار لیا۔
پاکستان میں اصل مصروفیت تو کام کرنے والی خواتین کی ہوتی ہے، چھٹی کے دن ان کو دہرا کام کرنا پڑتا ہے، سارے گھر کی صفائی، دھلائی کے علاوہ ہفتے بھر کی سبزیاں، گوشت لاکر رکھنا، سبزیاں ابال کر ریفریجریٹر میں سنبھال کر رکھنا، کام کرنے والی عورت کا دن چاہے وہ کھیت میں کام کرے کہ دفتر میں، مرد کے اٹھنے سے دو گھنٹے پہلے شروع ہوجاتا ہے، ڈاکٹر اور وکیل چاہے مرد ہو کہ عورت رات 10بجے تک کا م جاری رہتا ہے۔
اب آجایئے اس تجزیئے کی جانب، ہماری خواتین مغرب کی تقلید زیادہ کرتی ہیں کہ بس فیشن میں تقلید اور کام میں نہیں، ایک حد تک صحیح ہے کہ ہماری خواتین، مغرب سے کم اور انڈیا اور وہ بھی فلموں میں یا کیٹ واک میں جو فیشن دکھائے جاتے ہیں، ان کی تقلید کرتی ہیں، بال بنانے ہوں کہ کپڑوں کے فیشن، اگر دفتروں اور گھروں میں کام کرنے کا مقابلہ مغرب کی عورت سے کیا جائے تو ہم پیچھے رہ جاتے ہیں، ہمیں تو غریبوں کی شکل میں سستی لیبر مل جاتی ہے، ہمارے گھروں میں بچے سنبھالنے سے لیکر، ہانڈی روٹی کرنے تک کی مدد اور وہ بھی کم پیسوں میں مل جاتے ہیں جبکہ مغرب کی عورت کو سب کام خود ہی کرنے ہوتے ہیں، دفتر میں چائے بھی چاہئے تو خود اٹھ کر بناکر لانی ہوتی ہے، ہم اپنی وزیر خواتین کو دیکھیں تو ان کے روز کے لباس ودیگر آرائش پر شاید زیادہ وقت صرف ہوتا ہے بہ نسبت اس کام کے جو ان کے سپرد ہوتا ہے، ہماری ممبر پارلیمنٹ بھی اس میں پیچھے نہیں رہتیں، مرد بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے، دفتروں میں کام کا اوسط تو یہیں سے دیکھ لیجئے کہ فائلوں پر فائلیں بڑھتی رہتی ہیں، البتہ جس نے گھٹنوں کو ہاتھ لگا دیئے، وہ فائل فوراً نکل جاتی ہے۔
ہم گزشتہ چار ماہ سے بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم نے دہشت گردی کا قلع قمع کردیا ہے، اب یہ جو روز لال بیگ کی طرح ہر شہر سے لوگ پکڑے جارہے ہیں، وہ کہاں سے نکل رہے ہیں، شمالی وزیرستان کے لوگ اب تک بے گھر ہیں، کشمیر سے لیکر مانسہرہ تک کے لوگ، بدل رہائش ملنے کے انتظار میں آٹھ سال گزار چکے ہیں، سندھ اور جنوبی پنجاب میں سیلاب سے اجڑے ہوئے لوگ، اب تک امداد کے منتظر ہیں، یہ باتیں سچ ہیں تو بتائیں ہم لوگ محنت سے کام کرتے ہیں کہ دفتروں میں دن گزار کر، گھروں کو لوٹ جاتے ہیں، معاف کیجئے واپسی پر کوئی ٹینس کھیلتا ہے، کوئی سوئمنگ تو کوئی دوستوں کے ساتھ کلب جاکر ہائی ٹی کا لطف اٹھاتا ہے، ملک تو جیسے ستر سال سے چل رہا ہے، ویسا ہی چلتا رہے گا۔

.
تازہ ترین