• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے حالیہ آرٹیکل میں انکشافات سے ملکی سیاسی حلقوں میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسے موقع پر جبکہ پاکستان میں آپریشن ردالفساد کافیصلہ کن مرحلہ جاری ہے۔ ان حالات میں حسین حقانی کا قومی سلامتی کے خلاف بیان سامنے آنا انتہائی افسوس ناک ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اسامہ بن لادن تک رسائی کے لئے حسین حقانی نے امریکی سی آئی اے کے اہلکاروں کی بڑی تعداد کو اس وقت کی سویلین قیادت صدر زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی اجازت سے ویزے جاری کرنے کے اعتراف سے ثابت کردیا ہے کہ وہ حسب سابق ابھی تک امریکی نوکری پکی کرنے میں لگے ہیں اور انہیں قومی مفادات کی ہرگز کوئی پروا نہیں ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ نومبر2011میں جب پاکستان میں فوجی انٹیلی جنس نے سول حکومت پر غلبہ کر لیا تو مجھے بطور سفیر مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی شکایتوں میں مجھ پر یہ الزام بھی شامل تھا کہ میں نے پاکستان میں سی آئی اے کے جاسوسوں کی بڑی تعداد میں موجودگی میں مدد فراہم کی تھی۔ وہ فرماتے ہیں کہ امریکہ نے اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن سے ہمیں مکمل طور پر باہر رکھا اور پاکستانی انٹیلی جنس اور فوج پر انحصار کیے بغیر القاعدہ رہنما کو تلاش کرکے ختم کیا۔ حسین حقانی کے انکشافات کس قدر درست ہیں اس کا ٹھیک اندازہ لگانا ابھی خاصا مشکل ہے مگر یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کی قیادت کے لئے نئی مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ اگرچہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ اور امریکہ میں سابق سفیر شیری رحمان نے حسین حقانی کے الزامات کی نفی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا کوئی کردار نہیں تھا۔ خورشید شاہ نے تو پیپلز پارٹی کی حکومت میں امریکہ میں متعین کیے گئے اپنے ہی سفیر حسین حقانی کو غدار قرار دے دیا۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی وضاحت کی ہے کہ حسین حقانی کا آرٹیکل ان کاذاتی فعل ہے۔ پیپلز پارٹی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے بیانات عذر گناہ بدتر از گناہ کے مترادف ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حسین حقانی کو میمو کیس اسکینڈل میں بھی پاکستان بلا کر دوبارہ واپس امریکہ بھاگنے کا موقع زرداری حکومت نے ہی فراہم کیا تھا۔ حسین حقانی آج بھی میمو کیس اسکینڈل میں مطلوب ہیں۔ وہ سپریم کورٹ میں اپنے وعدے کے باوجود آج تک پاکستان واپس نہیں آئے۔ پیپلز پارٹی نے اپنی ماضی کی حکومت کے دوران انہیں مکمل تحفظ دیا۔ اگر آج حسین حقانی سچ بولنے پر آہی گئے ہیں تو پیپلز پارٹی کی قیادت سیخ پا کیوں ہو رہی ہے؟ اگر حسین حقانی سچ نہیں بول رہے اور پیپلزپارٹی پر جھوٹے الزامات لگائے ہیں تو اس پر پیپلز پارٹی حسین حقانی کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار سے التماس ہے کہ وہ قومی نوعیت کے اس حساس مسئلے پر ازخود نوٹس لے کر معاملے کی تحقیقات کروائیں۔ اگر عدالتی تحقیقات سے ثابت ہو جائے کہ حسین حقانی نے جھوٹے الزامات لگا کر پیپلز پارٹی کی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کو بدنام کیا ہے تو پھر انہیں پاکستان سے غداری کی بنیاد پر نشان عبرت بنانا چاہئے لیکن اگر پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کا بھی اس معاملے میں ملوث ہونا ثابت ہو جاتا ہے تو پھر سابقہ حکومتی شخصیات کے خلاف بھی سخت کارروائی ہونی چاہئے۔ سابق صدر آصف علی زرداری کو بھی حسین حقانی کے اعتراف حقیقت پر اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے تھی۔ ان کی طرف سے دو ٹوک موقف سامنے نہ آنے سے بھی پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف شکوک وشبہات بڑھتے جا رہے ہیں۔
میمو کیس کے بعد اب واشنگٹن پوسٹ میں حسین حقانی کے آرٹیکل کی اشاعت سے قومی سلامتی اور خود مختاری پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ حسین حقانی ایک قومی مجرم ہیں اور ان کو کسی بھی صورت معاف نہیں کرنا چاہئے۔ یادش بخیر! امریکہ کی کاسہ لیسی میں سابق ڈکٹیٹر مشرف اور حسین حقانی پیش پیش رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف اور حسین حقانی کے جرائم کی فہرست تو بہت لمبی ہے۔ آج پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کو جو مشکل دن دیکھنا پڑ رہے ہیں وہ سابق ڈکٹیٹر کی امریکہ نوازی کا تحفہ ہے۔ جنرل مشرف نے ایک امریکی ٹیلی فون کال پر ملکی سلامتی اور خود مختاری کا سودا کیا اور ایک ایسی نام نہاد جنگ میں پاکستان کو دھکیل دیا جس سے ابھی تک ہم نہیں نکل سکے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں امریکی مفاد کو ترجیح دی اور قومی مفادات کے خلاف کام کیا۔ ان کا دوسرا بڑاجرم پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت کئی پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کرنا تھا۔ حسین حقانی نے اسامہ بن لادن کے بارے میں تو سچ بول دیا ہے انہیں ڈاکٹر عافیہ کے بارے میں بھی سچ بولنا چاہئے۔ ڈاکٹر عافیہ کی بہن اور عافیہ موومنٹ کی رہنما ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ حسین حقانی امریکہ میں قید عافیہ صدیقی کے بارے میں بھی دنیا کو سچ سے آگاہ کریں کہ ان کو 86سال کی ظالمانہ سزا کیسے دلائی گئی تھی؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب 23ستمبر 2010کو امریکی فیڈرل کورٹ نے ڈاکٹر عافیہ کو 86سال کی قید ناحق کی سزا سنائی تھی تو حسین حقانی اُس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر، یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم اور آصف علی زرداری صدر مملکت تھے۔ حسین حقانی آخری وقت تک عافیہ کے اہل خانہ کو یقین دلاتے رہے تھے کہ عافیہ صدیقی باعزت بری ہو کر وطن واپس لوٹیں گی۔ ڈاکٹر عافیہ کی وکیل ایلین شارپ نے بھی میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے حسین حقانی کو اُس وقت میمورنڈم بھی پیش کیا تھا کہ عافیہ پر امریکہ میں کسی قانون کے تحت مقدمہ چل ہی نہیں سکتا لیکن یہ حسین حقانی ہی تھے کہ جنہوں نے امریکیوں کو خوش کرنے کے لئے عافیہ پر مقدمہ کی شروعات کروائی۔ افسوس یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو اپنی مرضی کا وکیل کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی اور ان کی ضمانت بھی نہیں کروائی گئی۔ ڈاکٹر عافیہ کے خلاف قائم کیا گیا مقدمہ شواہد کے اعتبار سے بھی اس قدر کمزور تھا کہ ان کی رہائی یقینی تھی۔ عافیہ کے کیس کی شفافیت کو عالمی ماہرین قانون جن میں سابق امریکی اٹارنی جنرل رمزے کلارک بھی شامل ہیں، قبول کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔ عافیہ کے خلاف 86سال کی سزا کا فیصلہ اس قدر غلطیوں سے پر، ناانصافی پر مبنی اور امریکہ جسٹس سسٹم کیلئے شرمندگی کا باعث ہے کہ اسے انٹرنیٹ سے حذف کرنے کا عمل جاری ہے۔ یہ تمام تر حقائق عافیہ کی بے گناہی کو ثابت کرتے ہیں اور کسی بے گناہ انسان کو قید میں رکھنا انسانیت اور انصاف کی توہین ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کو انصاف فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ عافیہ محب وطن اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی شہری ہے۔ وہ ماہر تعلیم ہے۔ وہ تعلیمی انقلاب سے معاشرے میں حقیقی تبدیلی لانے کی صلاحیت رکھتی ہے جس کا اظہار امریکی دانشور اور عافیہ کے استاد نوم چومسکی کرچکے ہیں۔ اگر ہمارا معاشرہ تعلیم یافتہ بن جائے تو حسین حقانی جیسے کردار انتظامیہ اور سیاست میں کبھی بھی کوئی جگہ حاصل نہیں کر پائیں گے۔ حسین حقانی نے ملکی وقوم سے غداری کی ہے ان کو ڈاکٹر شکیل آفریدی کی طرح احتساب کے شکنجے میں لانا چاہئے۔

.
تازہ ترین