• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس ہفتے کی ایک بڑی خبر کہ جس کا تعلق ہم سب سے ہے کہ مردم شماری کا آغاز ہوچکا ہے اور یہ کام 19 سال بعد سپریم کورٹ کی سرزنش جیسی تاکید کے بعد کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں جن خدشات یا تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے اس سے قطع نظر مردم شماری کی ضرورت اور اہمیت واضح ہے۔ اس طرح ہم پاکستان کے کئی بنیادی حقائق کا کھوج لگا پائیں گے۔ لیکن یہ مسئلہ اپنی جگہ موجود رہے گا کہ ہم اپنے ملک کی سچائیوں کو کتنا سمجھتے ہیں اور یہ بھی کہ یہ سچائیاں ہم سے کس فکر، عمل اور روئیے کا تقاضا کرتی ہیں۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ ہمارے بیشتر پڑھے لکھے لوگ بھی پاکستان کو اچھی طرح نہیں جانتے، سمجھنے کی بات تو بہت دور کی بات ہے۔ اسی لئے میں نوجوانوں کے لئے یہ مشق تجویز کرتا ہوں کہ وہ اپنے لئے اپنی دلچسپی اور ضرورت کے مطابق پاکستان کی ایک تصویر بنائیں اور اس حوالے سے اپنے ملک کے ساتھ ایک رشتہ استوار کریں جو کسی حد تک ذاتی نوعیت کا ہو۔ پھر وہ اس قابل ہوسکتے ہیں کہ قومی مسائل کے بارے میں کوئی رائے دیں یا کسی قسم کا کوئی نعرہ لگائیں۔ میں نے اپنے تجربے کی بات کی، ایک تو مجھے کئی تعلیمی اداروں کی کسی کلاس میں گفتگو کرنے کا موقع ملتارہتا ہے پھر غیر سرکاری تنظیموں کے تربیتی اجلاسوں میں بھی شریک رہا ہوں۔ اپنے معاشرے کی تہذیبی، تعلیمی، فکری اور اخلاقی پسماندگی کا رونا میں روتا رہتا ہوں۔ اس کی ایک وجہ ہمارے نوجوانوں کی اپنے ملک سے ناواقفیت بھی ہے۔ سامنے کے حقائق کے بارے میں بھی وہ تذبذب کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ ملک کی معروضی صورتحال اور اس کے مسائل کے بارے میں آپ کی لاعلمی تو اتنی واضح ہے لیکن کس مسئلے کا حل کیا ہے وہ آپ فوراً بتادیتے ہیں۔ یہی نہیں، اپنے نقطہ نظر کے لئے لڑنے مرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ گنے چنے سنجیدہ اور دانش مند نوجوانوں کو چھوڑ کر باقی سب کہ جو ہر طرف دندناتے پھرتے ہیں بظاہر نہ اپنے آپ کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ اپنے معاشرے کو۔ اس ضمن میں میں نوجوانوں کے لئے لکھے گئے اس ناول کا تذکرہ بھی کرتا ہوں جو دراصل فلسفے کی تاریخ پر مبنی ہے اور جو شروع ہی تین لفظوں کے اس سوال سے ہوتا ہے کہ ’’تم کون ہو؟‘‘۔ اگر کوئی آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود سے یہ سوال کرے تو معاملہ کتنا گمبھیر ہوسکتا ہے اور اگر اسی طرح ’ایک تصوراتی رمز کے طور پر‘ پاکستان آپ سے پوچھے کہ میں کون ہوں تو پھر آپ کیا سوچیں گے؟ آپ کے ذہن کے پردے پر کیسی تصویریں جھلملائیں گی؟
یہاں ہر فرد کے اپنے علم اور سمجھ اور سوچ اور جذبات کی عکاسی الگ اور منفرد انداز میں سامنے آئے گی۔ آپ پاکستان کو کس طرح دیکھتے ہیں اس کا ایک تعلق اس بات سے بھی ہے کہ آپ کون ہیں؟ کہاں ہیں اور آپ کیسی زندگی جی رہے ہیں۔ کیا آپ مرد ہیں یا عورت؟ خوشحال یا تنگ دست؟ شہری یا دیہاتی؟ ان پڑھ یا تعلیم یافتہ؟ بیمار یا صحت مند؟ بزدل یا مہم جو؟ اور اس فہرست کو آپ جتنا چاہیں طویل کردیں۔ جس مشق کا میں نے ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ میں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ آپ ایک موٹا سا رجسٹر خریدیں یا اگر آپ کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں تو ایک فائل کھولیں اور ایسا مواد جمع کرنا شروع کریں جو آپ کے لئے پاکستان کی تصویر بن سکے۔ اس کام کے لئے آپ کو اخبارات اور رسائل اور مخصوص کتابوں کا مطالعہ بھی کرنا پڑے گا۔ گوگل کے جنگل میں بھٹک جانے کا کافی امکان رہتا ہے لیکن حقائق کی تصدیق کے لئے اسے ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ بنیادی اعدادوشمار خواہ وہ اندازے ہی کیوں نہ ہوں، لازمی مضمون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ کتنی بڑی حقیقت ہے کہ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے اور یہ بھی کہ دنیا کے صرف ان سات ملکوں سے ہے جو اعلانیہ جوہری صلاحیت رکھتے ہیں۔ پھر ہماری باقاعدہ فوج بھی دنیا میں شاید چھٹے یا ساتویں نمبر پر ہے۔ اب ان حقائق کے تناظر میں یہ دیکھئے کہ اقوام متحدہ کی انسانی ترقی کی فہرست میں ہم تقریباً دنیا کے 140 ممالک سے پیچھے ہیں۔ اسی طرح دوسرے کئی عالمی جائزوں میں ہم کہاں ہیں؟ اس کو بھی اپنے گوشوارے میں شامل کریں۔ کہیں کہیں ہم نے کچھ کمال بھی کیا ہے کہ جیسے ہماری اسٹاک ایکسچینج کی کامیابی کا بڑا چرچا ہے۔ حال ہی میں معاشی صورتحال کے بارے میں کئی امید افزا خبریں سننے کو ملی ہیں۔ سی پیک کا سورج بھی طلوع ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ اگر کوئی ایک منصوبے کے تحت پاکستان کی تصویر بنائے تو پھر اسے یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ اس تصویر میں اجالا کتنا ہے اور اس کی سیاہی کہاں تک پھیلی ہوئی ہے۔ یعنی مجموعی تاثر کیا ہے، ظاہر ہے کہ کوئی کسی پہلو کو زیادہ اہمیت دے گا اور کسی دوسرے کی نظر میں کوئی ایک ہی رنگ پوری تصویر پر پھیلا دکھائی دے گا۔ یعنی امید اور مایوسی کے درمیان کشمکش جاری رہے گی۔ پھر بھی یہ تو لازم ہے کہ ہم حقائق سے منہ نہ موڑیں اور اپنے ملک کی سچائیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہیں۔
اعدادوشمار اور کسی بھی شعبے کے بارے میں کسی عالمی جائزے سے ہٹ کر بھی ہم اپنے ذاتی مشاہدے اور تجربات کی روشنی میں اپنے ملک کی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی اس سے بہت فرق پڑتا ہے کہ کون، کس منظر کو، کس نظر سے دیکھتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کراچی کے سب سے شاندار شاپنگ مال میں داخل ہوجائیں گے تو لگے گا کہ آپ کسی اور ہی دنیا میں ہیں۔ ہاں، اگر آپ اپنے گھر سے وہاں تک کے راستے میں اپنی آنکھیں اور اپنا ذہن کھلا رکھیں تو معاشرے کے کئی تضادات آپ کو اپنی طرف متوجہ کریں گے۔ میرا ایک دکھ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ کہ جسے اقتدار تک رسائی حاصل ہے نہ صرف اپنے افتادگان خاک کی زندگی سے ناواقف ہے بلکہ اس نے اپنے گرد تحفظ کی ایک ایسی اونچی فصیل بنالی ہے کہ اسے باہر کی دنیا دکھائی بھی نہیں دیتی۔ ایک دفعہ میں نے ایک ایسے بڑے اسکول کی ایک کلاس کا سرسری سروے کیا جس کے ایک طالبعلم کی ماہانہ فیس ایک نچلے متوسط طبقے کے کسی خاندان کی آمدنی سے زیادہ ہے۔ پتہ چلا کہ جتنے بچے کراچی کی لی مارکیٹ سے واقف تھے ان میں کہیں زیادہ پیرس کے ایفل ٹاور پر چڑھ چکے تھے۔ یہ وہ بچے ہیں جو کسی مصروف بازار کی فٹ پاتھ پیدل نہیں چل پاتے۔ یہ دوسری بات ہے کہ وہ بڑے ہوکر پاکستان کی تقدیر کے فیصلے کریں گے اور ان کے لیڈر دن رات عوام، عوام کا راگ الاپیں گے۔ میرے ایک دوست نے پاکستان کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے کراچی کے چار مقامات منتخب کئےہیں کہ ان میں سے ہر ایک میں کئی گھنٹے گزارے جائیں۔ ان کا مشورہ ہے کہ پہلے آپ صبح سے سہ پہر تک سٹی کورٹس کی راہداریوں میں چلیں پھریں، لوگوں کو دیکھیں اور ہوسکے تو ان سے باتیں بھی کریں۔ اگلے دن آپ کا پڑائو کوئی پولیس اسٹیشن ہو، اجازت مل جائے تو وہاں بیٹھ کر بس دیکھتے رہیں کہ کون کیا کررہا ہے؟ تیسری جگہ زیادہ وقت مانگتی ہے اور ممکن ہو تو نصف شب کے بعد تک وہاں ٹھہریں اور یہ جگہ ہے کوئی بڑا سرکاری اسپتال اور اس کے مختلف وارڈ۔ اس سے پہلے کہ وہ دوست اگلی منزل کی نشاندہی کرتا میں نے شکوہ کیا کہ ان تین مقامات کے بعد کسی میں اتنی سکت کہاں رہے گی کہ پاکستان کی سچائی کا کوئی اور چہرہ بھی دیکھے۔ جواب ملا کہ چلو، شاپنگ مال کو اگلا اسٹاپ بنالو، تین سو روپے کی کافی پی کر اور شگفتہ چہرے دیکھ کر کچھ دل تو بہل جائے گا۔

.
تازہ ترین