• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دریائوں کے رنگ نیارے ہیں۔ ہر اٹھلاتی ہوئی موج اگلی مسافتوں کا پتا دیتی ہے۔ 1949 ء کے ابتدائی مہینے تھے۔ لاہور کے کسی چائے خانے میں بیٹھے ناصر کاظمی نے قائم چاند پوری کی زمین میں غزل کہی تھی۔دن پھر آئے ہیں باغ میں گل کے… مصرع ثانی پر غور فرمائیے ۔ بوئے گل ہے سراغ میں گل کے… اس برس بارہ مارچ کو قرارداد مقاصد منظور کی گئی تھی۔ تب قائداعظم کے انتقال کو ٹھیک چھ ماہ گزرے تھے۔ پاکستان کی ریاست کا افتتاح کرتے ہوئے 11 اگست 1947 ء کوبانی پاکستان نے شہریوں سے جو وعدہ کیا تھا، مارچ 1949ء میں اسے پس پشت ڈال دیا گیا تھا۔ دستور ساز اسمبلی کے ایک بھی غیر مسلم رکن نے قرارداد مقاصد کی تائید نہیں کی۔ دستوریہ کے مسلم ارکان نے پاکستان کی قومی ریاست میں بین المذاہب عمرانی معاہدے کی حیثیت پانے والی یہ قرارداد یک طرفہ طور پر منظور کی۔ قرارداد قانون سازی نہیں ہوتی۔ منتخب ایوانوں میں قانون سازی کے طے شدہ ضابطے ہوتے ہیں۔ یہ قرارداد پاکستان کے دستور میں دیباچے کے طور پر شامل کی گئی۔ 1985 ء میں فوجی آمر نے مارشل لا اٹھانے کے لئے آٹھویں آئینی ترمیم کی شرط لگا دی۔ اس آئینی ترمیم کے ذریعے قرارداد مقاصد کو آئین کا نافذ العمل حصہ بنا دیا گیا۔14 مارچ 2017 ء کو کراچی میں ہولی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان کی قومی ریاست میں تمام شہریوں کے لئے ایک جیسے آئینی اور سیاسی حقوق کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم نے ہم سب کے پاکستان کا خواب ہمیں واپس لوٹا دیا۔ نواز شریف نے قائد اعظم کے نصب العین کی طرف واپسی کا اشارہ دیا۔ ہم وزیر اعظم کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔ 12مارچ 1949 ء کے اس انحراف پر صرف سڑسٹھ برس گزرے ہیں ۔ تین نسلوں کا امکان ضائع ہوا ہے۔ آدھا ملک ہم نے گنوا دیا ہے۔ 12 مارچ 1949 ء سے 14 مارچ 2017ء تک بوئے گل کے تعاقب نے ہم سے کڑا امتحان لیا۔
توقع کے عین مطابق ذرائع ابلاغ میں وزیراعظم کی اس تاریخ ساز تقریر کو حسب منشا قطع برید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ معمول کے اعلانات کو خبر میں نمایاں کر کے گویا اہتمام کیا گیا کہ پاکستان کے رہنے والوں کو احساس نہ ہونے پائے کہ وزیراعظم نے ستر برس کے وقفے کے بعد قوم کے نصب العین کو صحیح سمت میں بیان کر دیا ہے۔ اگست 1947 ء میں قائداعظم محمد علی جناح کی تاریخی تقریر کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی سلوک کیا گیا تھا۔ اخبارات کو ہدایت کی گئی تھی کہ قائداعظم کی تقریر سنسر کر دی جائے۔ ہمیں بار بار بتایا گیا کہ قائداعظم کی یہ تقریر سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کی جاتی ہے۔ ہم دست بستہ پوچھتے رہے کہ قائداعظم کا کون سا جملہ سیاق و سباق سے الگ کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔ ہمارے کان جواب سے محروم رہے۔ کہا جاتا تھا کہ قائداعظم نے تو اور بھی بہت سی تقریریں کی ہیں، اس تقریر میں ایسی کیا خاص بات تھی ؟ قائداعظم کی اس تقریر میں وہی بات خاص تھی جس کا ذکر مہربانوں کو ناگوار گزرتا رہا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ قائداعظم کی اس تقریر کا حوالہ دینے پر پابندی لگا دی گئی، ایک دانشور نے تو دعویٰ کیا کہ قائداعظم نے یہ تقریر کبھی کی ہی نہیں۔ میاں نواز شریف کی 14مارچ 2017 ء کی تقریر میں وزیراعظم نے ایک بھی جملہ ایسا نہیں کہا جس سے کوئی محب وطن شہری اختلاف کر سکے۔ پاکستان کے وزیراعظم نے پاکستان کی ریاست کے لئے اس منزل کا اعلان کیا ہے جس کا وعدہ بانی پاکستان نے کیا تھا۔ خدشہ ہے کہ کچھ عرصہ بعد ہمیں بتایا جائے گا کہ میاں نواز شریف کی تقریر کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا تھا ۔ نیز یہ کہ 14 مارچ 2017ء کو ہولی کی تقریب کی جعلی ویڈیو بنائی گئی ہے۔ کھیل داس کے کھلکھلاتے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ فوٹو شاپ کر کے چپکا دی گئی ہے۔ ہمیں بتایا جائے گا کہ وزیراعظم نواز شریف نے پوری تقریر میں ایک بھی دفعہ سیکولرازم کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ ہمیں اقرار کرنا چاہئے کہ قائداعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 ء کو اپنی تقریر میں جو کہا تھا وہی سیکولراز م کا حقیقی مفہوم ہے۔ میاں نواز شریف نے بھی 14مارچ 2017 ء کی تقریر میں سیکولرازم کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ وزیراعظم نے جو فرمایا ہے، یہی سیکولرازم ہے۔ سیکولرازم مذہب کی مخالفت کا نام نہیں۔ سیکولرازم مذہب کے نام پر امن اور رواداری قائم کرنے کا طریقہ کار ہے۔ سیکولرازم کا ایک ہی تقاضا ہے کہ ریاست عقیدے کی بنیاد پر کسی شہری کے ساتھ امتیاز نہ کرے۔ سب شہریوں کو ایک جیسا تحفظ دیا جائے۔ سب شہریوں کو ترقی کرنے کا ایک جیسا موقع ملے۔ اگر قائداعظم محمد علی جناح اور میاں نواز شریف نے سیکولرازم کا لفظ استعمال نہیں کیا تو ہمیں بھی سیکولرازم کی اصطلاح پر اصرار نہیں۔ ہماری درخواست ہے کہ پاکستان کے بانی کی تقریر میں کیا گیا وعدہ ہمارے ساتھ پورا کیا جائے۔ تین دفعہ ملک کا وزیراعظم منتخب ہونے والے رہنما نے ہمیں جو یقین دہانی کرائی ہے ،ریاست اس پر قائم رہے۔
14 مارچ 2017 ء کی صبح وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے سرکاری طور پر ہولی کے موقع پر اپنا پیغام جاری کیا۔ آئیے وزیراعظم کے اس باضابطہ پیغام کا ایک اقتباس پڑھتے ہیں۔ ’’ہولی کے تہوار میں… امید کا پیغام ہے،وہ امید جو ہمیں ایک بہتر مستقبل کی خبر دیتی ہے۔یہ اس بات کی نویدہے کہ جس طرح سرماکا موسم بہار میں بدلتا ہے، اسی طرح معاشروں کے حالات بھی تبدیل ہوتے ہیں… پاکستان کا موسم بھی تبدیل ہو رہا ہے اور یہاں بہار کے وہ دن لوٹ رہے ہیں جن کی تلاش میں مذاہب کے مابین پرامن بقائے باہمی کی بنیاد رکھی گئی۔پاکستان اس لئے قائم ہوا تھا کہ یہ مسلمانوں ہی کے لئے نہیں، اس خطے میں آباد ہر قبیلے اور برادری کے لئے امن کا مرکز بنے۔قائد اعظم نے 11 اگست1947ء ہی کو واضح کر دیا تھا یہاں مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک روانہیں رکھا جائے گا۔قائد اعظم نے اس تقریر میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا،ریاست پاکستان اس کو نبھانے کی پابند ہے اور اس معاملے میں کوتاہی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی‘‘۔
یاد دلانا چاہئے کہ مئی 2013ء میں تیسری مرتبہ پاکستان کا وزیراعظم منتخب ہونے سے قبل لاہور میں میاں نواز شریف نے اعلان کیا تھا کہ کائنات کے خالق کو اللہ تعالیٰ ، رب کریم یا واہ گرو کہنے میں کوئی فرق نہیں۔ 2015ء میں وزیراعظم نواز شریف نے اعلان کیا تھا کہ قوم کا مستقبل ایک لبرل اور جمہوری پاکستان سے وابستہ ہے۔ گزشتہ ہفتے جامعہ نعیمیہ میں خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے علمائےلئے کرام سے ایک پرامن اور روادار پاکستان کے قیام میں رہنمائی کی درخواست کی تھی۔ میاں نواز شریف کے ان تمام ارشادات میں ایک تسلسل پایا جاتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی فکر نواز شریف کی سوچ میں ڈھل رہی ہے۔ قوم کے نصب العین کے احیا پر وزیر اعظم کا خیر مقدم کرنا واجب ہے ۔ ماضی میں میاں نواز شریف کے پرجوش حامی انہیں قائداعظم ثانی قرار دیتے تھے تو ہم جیسے تشکیک پسند استہزا کیا کرتے تھے۔ تاریخ کے دریا کی ہر موج میں نئی مسافتوں کا اشارہ ہوتا ہے۔ قائداعظم کے اس سچے مقلد کے لئے تہنیت کے طور پر منیر نیازی کا شعر پڑھنا چاہئے۔
وہ نہیں، اس سا تو ہے خواب بہار جاوداں
اصل کی خوشبو اڑی ہے اس کے ثانی میں بہت

.
تازہ ترین