• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’ اس وقت دنیا میں عیسائیت سب سے بڑا مذہب ہے، اس کے بعد مسلمان آتے ہیں۔ اسلام دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ اگر موجودہ رجحان برقرار رہا تو 2050ء تک اسلام عیسائیت کی جگہ لے کر دنیا کا مقبول ترین مذہب اور پھر 2070 تک اسلام سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔‘‘ یہ الفاظ واشنگٹن میں واقع پیو ریسرچ سینٹر کی تازہ رپورٹ کے ہیں۔ 2011کے سروے کے مطابق مسلمانوں کی تعداد1ارب 60کروڑ اور عیسائیوں کی تعداد 2ارب کے لگ بھگ تھی۔ مسلمان دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ ہیں۔ تحقیقی اعدادو شمار کے مطابق دنیا میں 1576233470 مسلمان آباد ہیں، جن میں سے ایک ارب ایشیا میں، 400 ملین افریقہ، 44 ملین یورپ میں اور 6 ملین امریکہ میں رہتے ہیں۔ دنیا میں ہر پانچواں انسان مسلمان ہے۔ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد کے ساتھ مسلمانوں کا تناسب کچھ اس طرح سے بنتا ہے ،ہر ہندو کے مقابلے میں 2 مسلمان اور ہر یہودی کے مقابلے میں ایک سو مسلمان ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد میںپہلے بتدریج اضافہ ہو رہا تھالیکن نائن الیون کے بعدتیزی سے اضافہ شروع ہواہے۔
روزانہ اوسطاً دنیا بھر میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد 1500افراد سے زیادہ ہے۔ ہالینڈ کی آبادی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کے قریب ہے جس میں 12 لاکھ سے زائد مسلمان ہیں۔ تناسب کے اعتبار سے یورپ کے جس ملک میں زیادہ مسلمان ہیں وہ ہالینڈ ہی ہے۔ مختلف رپورٹوں کے مطابق گزشتہ5سالوں میں صرف امریکہ ویورپ میں چار لاکھ افراد حلقہ بگوش اسلام ہوچکے ہیں۔ سوئزر لینڈ میں 37ہزار خواتین مشرف بہ اسلام ہوچکی ہیں۔ اسپین میں بھی ایک لاکھ سے زیادہ اسلام میں داخل ہوچکے ہیں۔ فرانس میں بھی اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ویسے امریکہ اور فرانس میں اسلام دوسرا بڑا مذہب شمار ہوتا ہے۔ آسٹریا میں تیسرا بڑا مذہب ہے۔ آسٹریا میں نائن الیون کے بعد 36ہزار عیسائیوں نے اسلام قبول کیاہے۔ مقامِ مسرت ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، اسپین، جرمنی، ہالینڈ اور دیگر ممالک کے ہزاروں فلم اسٹار، سائنس دان، کھلاڑی، ڈاکٹر، انجینئر اور سیاستدانوں نے دائرہ اسلام میں داخل ہو کر دنیا کو یہ پیغام دیا ہےکہ مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا، مذہبی تعصب، نسلی امتیاز اور اقتصادی و معاشی مفادات کا آئینہ دار ہے اور تمام خوبیوں کا مجموعہ اسلام ہے۔اس حقیقت کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا دشموںنے اسلام کی تیز رفتار ترقی کے خوف سے ہمیشہ اسلام کی راہ میں روڑے اٹکائے ہیں۔ ماضی قریب میں نائن الیون کے واقعہ کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کو اذیت، پریشانی اور گوناگوں مشکلات میں مبتلا کیا گیا۔ سامراج نے ایک طرف مسلم ممالک میں سازشوں کے جال بن کر بدامنی، خونریزی اور قتل و قتال کو جنم دیاتودوسری جانب نیٹو کے ساتھ مل کر مختلف مسلم ممالک میں مسلمانوں پر آتش و آہن کی بارش کر کے خون کی ندیاں بہا دیں۔ امریکی سامراج نے اتنے مظالم ڈھائے کہ امریکہ و یورپ کے کئی غیر جانبدار حلقے اس ناانصافی کے خلاف چیخ اٹھے۔ تقابلِ ادیان پر مطالعہ کرنے والی غیر جانبدار برطانوی مصنفہ اور اسکالر ’’آرم اسٹرانگ‘‘ کہتی ہیں کہ میں نے 31سال تمام مذاہب کا مطالعہ کیا۔ میں سمجھتی ہوں اسلام تمام مذاہب کے لئے رہنما کردار ادا کرسکتا ہے۔‘‘ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے محکمہ تعلقات عامہ کی جاری کردہ رپورٹ بعنوان ’’امریکا میں اسلام‘‘ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ امریکی تھنک ٹینکس نے اپنی مشترکہ رپورٹس میں کہا ہے اگر اس طرح لوگ مسلمان ہوتے رہے تو عنقریب اسلام امریکہ کا پہلا بڑا مذہب ہوجائے گا۔ آپ ﷺکا فرمان ہے: ’’ایک وقت ایسا آئے گا جب ہر کچے اور پکے گھر میں اسلام داخل ہوچکا ہوگا۔‘‘ دنیا بھر کے اہم ترین افراد کے جوق درجوق دائرۂ اسلام میں داخل ہونے سے یہ بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ وہ وقت آپہنچا ہے۔
ایک اور نکتے کی طرف آجائیں! مسلمان جغرافیائی، مالی اور معدنی لحاظ سے بھی بہت آگے ہیں۔192ممالک میں سے 58ممالک مسلمان ہیں۔ دنیا کے معدنی ذخائر میں 75فیصد کے مالک ہیں۔ دنیا کی بہترین بندرگاہیں، گزر گاہیں، آبی، زمینی اور فضائی راستے مسلمانوں کے پاس ہیں۔ سب سے اچھا محل وقوع مسلم ممالک کا ہے۔ تیل کے لبالب کنویں اور سونے کی کانیں ہیں۔ دنیا میں تیل پیدا کرنے والے 11ممالک سعودی عرب، ایران، وینزویلا، امارات، نائیجیریا، کویت، لیبیا، انڈونیشیا، الجزائر، قطر، عراق میں سے 10مسلمان ہیں۔ جبکہ دنیا میں تیل پیدا کرنے والے سات بڑے ممالک مسلمان ہیں، لیکن ان کے تیل کی ترسیل اور فروخت کرنے والی سات بڑی کمپنیاں غیرمسلم ہیں۔ جس وقت میں کسی یہودی کا ترتیب دیا ہوا ایسا نقشہ اور خاکہ دیکھتا ہوں جس میں مسلمان علاقوں کے حصے بخرے کئےہوتے ہیں تو میرے ذہن میں فوراً جنگِ عظیم دوم کے بعد کے حالات آجاتے ہیں اور یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ جنگ عظیم دوم کے بعد جزیرۃ العرب کو 12 حصوں میں کیوں تقسیم کیا گیا تھا؟ عالمی حالات کو مدنظر رکھ کر ذرا سوچئے! کیا اب عالمِ اسلام کے مزید ٹکڑے ہونے والے ہیں؟ کیا مسلمان یونہی لوٹے جاتے رہیں گے؟ کیا عالمِ اسلام مغلوب ہی رہے گا؟ حالانکہ دنیا کے تمام مذاہب اور ادیان میں سے بہترین مذہب اسلام ہے۔ اس کی زرّیں تعلیمات ہیں۔ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اگر نہیں ہے تو دور اندیش، نڈر اور بہادر قیادت نہیں ہے۔ کوئی ایسا کپتان نہیں ہے جو عالمِ اسلام کی ڈولتی اور ڈوبتی کشتی کنارے لگادے۔ دوسری بڑی وجہ مسلمانوں کا آپس کا اختلاف ہے۔ عالم اسلام کے58ممالک اور اس کے حکمرانوں میں اتحاد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک اللہ، ایک نبی اور ایک قرآن کے ماننے والے ایک دوسرے کے دشمن معلوم ہوتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور اتفاق واتحاد پر دیا گیا ہے۔ آپ ﷺنے حجۃ الوداع میں حکم فرمایا تھا: ’’دیکھو! باہمی اختلافات میں نہ پڑ نا۔‘‘ قرآن میں ہے:’’اختلاف ہرگز ہرگز نہ کرو۔‘‘ تاریخ اٹھاکر دیکھیں اختلافات ہی کی وجہ سے مسلمانوں کو بڑے بڑے نقصانات اٹھانا پڑے ہیں۔
تیسری بڑی وجہ علم،تحقیق،جدید ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جانا ہے۔جب ہم مسلمان تحقیق و ریسرچ کیا کرتے تھے،تو دنیا پر حکمرانی بھی کیا کرتے تھے۔ اب جو قومیں جدید ٹیکنالوجی میں آگے ہیں،تحقیق کرتی ہیں تو دنیا پر حکمرانی بھی وہی کرتی ہیں، حق بھی انہی کا ہے۔ اگرہم اپنی عظمت رفتہ کی بحالی چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اپنی دولت اپنے عوام کی تعلیم اور صحت کے ساتھ جدید ترین ٹیکنالوجی کے حصول پر خرچ کرنی چاہئے۔ اپنے ممالک میں جدید ترین انفارمیشن اور سائنسی علوم پر مشتمل یونیورسٹیاں قائم کرنی چاہئیں، انسانی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے نئی نئی تحقیقات اور ایجادات کے ساتھ عسکری قوت تیار کرنے پر خرچ کرنی چاہئے۔ سب سے افسوس ناک صورتِ حال تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی وہ دولت جو عالم اسلام کی کایا پلٹ سکتی تھی آج وہ دشمنوں کے گھر روشن کررہی ہے۔ مسلمانوں کو تیل کی تلچھٹ کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آرہا۔ عالم اسلام کی تعلیمی حالت تو یہ ہے کہ دنیا کی500بہترین یونیورسٹیز میں عالمِ اسلام کی کسی ایک بھی یونیورسٹی کا نام شامل نہیں۔ مسلم ممالک اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ اپنی آزاد اور خودمختار پالیسیاں اپنالیں توکوئی وجہ نہیں کہ مسلمانوں کے دن نہ پھریں۔ اللہ کا بھی یہی ارشاد ہے: ’’ہم اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتے جب تک وہ خود بدلنے کا ارادہ نہیں کرلیتی۔‘‘ہم مسلمان اپنی تعداد بڑھنے پر خوش ضرور ہوں، مگر ایسے کام بھی کریں کہ دنیا اسلام کو اس کی جامعیت، عظمت اور اصل تصویر کے ساتھ بھی دیکھ سکے۔ کاش! وہ وقت جلد آجائے!!

.
تازہ ترین