• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک بھر میں چھٹی مردم شماری کا آغاز ہوچکا ہے۔ انیس برس کے طویل وقفے کے بعد ہم اپنی آبادی کا جائزہ لینے پر آمادہ ہوئے ہیں۔ اگرچہ آئین پاکستان تقاضا کرتا ہے کہ ہر دس برس بعد مردم شماری کروائی جائے۔ہمارے ہاں مگر یہ اہم معاملہ تاخیر کا شکار رہا۔ حکومتیں مختلف حیلوں بہانوں کی آڑ میں اس ذمہ داری سے نگاہیں چراتی رہیں۔ آخری بار مردم شماری کا انعقاد1998 میں ہوا، یعنی وزیراعظم نوازشریف کے دوسرے دور حکومت میں۔ یہ مردم شماری بھی اٹھارہ برس کے وقفے کے بعد ہوئی تھی۔ اسکے بعد دس برس جنرل پرویز مشرف برسر اقتدار رہے اور پانچ سال پیپلز پارٹی۔ ، تاہم اس آئینی تقاضے کو نظرانداز کیا گیا۔ اب ایک بار پھر وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت مردم شماری کروا رہی ہے۔وفاقی حکومت نے اس مقصد کیلئے 18 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی ہے ۔ دو سال قبل موجودہ حکومت نے مردم شماری کروانے کا عندیہ دیا تھا۔اسی تناظر میں مارچ 2015 کو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں فیصلہ ہواکہ اگلے سال یعنی مارچ 2016 میں مردم شماری کروائی جائے گی۔ تاہم مطلوبہ فوجی افرادی قوت کی عدم دستیابی کے باعث، اس فیصلے پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔ اب ایک لاکھ انیس ہزار تربیت یافتہ سول ملازمین اور دو لاکھ فوجی جوانوں کی مدد سے یہ کٹھن مشق جاری ہے۔فوج کی شمولیت اس عمل کی ساکھ اور امن عامہ کے تناظر میں بے حد اہم ہے۔ حالیہ مردم شماری دو مراحل میں ہوگی۔ پہلا مرحلہ 15مارچ سے 15اپریل تک جاری رہے گا۔ دوسر ا مرحلہ دس یوم کے وقفے کے بعد، 25اپریل سے شروع ہو گا اور 25مئی کو مکمل ہو جائے گا۔ اسکے ساٹھ روز بعد نتائج جاری کر دیئے جائیں گے۔
مردم شماری ایک نہایت اہم قومی تقاضا ہے۔ اس کے بنا کسی بھی طرح کی موثرمنصوبہ بندی ممکن نہیں ۔ملک کی تعمیر و ترقی سے متعلق منصوبہ بندی اور انتظام کاری کے لئے لازم ہے کہ درست طور پر معلوم ہو کہ ملک کی مجموعی آبادی کیا ہے۔کتنے لوگ شہروں میں آبادہیں اور کتنے دیہات میں، مردو خواتین کی آبادی کا تناسب کیا ہے، شرح خواندگی کس قدر ہے، بچوں اور نوجوانوں کی تعداد کیاہے۔ ان اعداد و شمار کی مدد سے افراد کی ضروریات کا اندازہ لگایا جا تاہے اور وسائل تقسیم ہوتے ہیں۔ 1998 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق ہماری آبادی 13 کروڑ 47لاکھ تھی۔ اب تک ہم قیاس کی بنا پر اپنی آبادی تقریباً 20کروڑ تصور کرتے ہیں۔ انہی فرضی اعداد و شمار کی بنیاد پر ملک کا انتظام چلتا رہا۔ پالیسیاں بنتی رہیں اور وسائل تقسیم ہو تے رہے۔
اب 9سال کی تاخیر ہی سے سہی، مردم شماری ہو رہی ہے تو اس مثبت پیش رفت کاخیر مقدم ہونا چاہیے۔ درست طور پر معلوم ہو سکے گا کہ ہماری اصل آبادی کتنی ہے،ان میں مردوں اور خواتین کی تعداد کیا ہے۔ کن مذاہب اور قومیت کے لوگوں کی تعداد کیا ہے، نوجوانوں اور بچوں کی تعداد کیا ہے۔ شرح خواندگی سے متعلق اصل صورتحال سامنے آئے گی۔ تاریخ میں پہلی بار خواجہ سرائوں کی اصل تعدادکا تعین بھی ہو سکے گا۔اسکے بعدانہی اعداد و شمار کی روشنی میں منصوبہ بندی کی جا سکے گی۔ صوبوں کی آبادی کا ازسر نو تعین ہوگا، اور اسی حساب سے این ایف سی ایوارڈ اور ملکی وسائل کی تقسیم کی جائے گی۔ نئے اعداد و شمار کی روشنی میں نئی حلقہ بندیاں بھی ہوں گی ۔ امکانی طور پر قومی وصوبائی اسمبلی کی نشستوں میں بھی اضافہ کرنا پڑے گا۔ آبادی کی تقسیم اور ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے، وسائل اور ترقیاتی فنڈز کا استعمال ہو سکے گا۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر معاملے کو سیاست کی نذر کرنے کی روایت ہے۔کسی اچھے کام کی تعریف کرنے کے بجائے تنقید کی عادت رواج پا چکی ہے۔اتفاق رائے فروغ دینے کے بجائے رائے کو تقسیم کیا جاتا ہے۔ مردم شماری کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ اس پر بھی سیاست ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ پیپلزپارٹی کواعتراض ہے کہ مردم شماری کروانے سے قبل حکومت کوتمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ بجاکہ قومی معاملات میں اتفاق رائے اور شفافیت یقینی بنانے کی اولین ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ مردم شماری کا فیصلہ دسمبر2016 میں مشترکہ مفادات کونسل میںوزیر اعظم اورتمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی مشاورت اور منظوری سے ہواتھا۔ اسکے بعد عدالت عظمیٰ کو بھی تحریری طور پر آگاہ کر دیا گیا تھا۔ اس اتفاق رائے کے بعد اگر کسی بھی جماعت کو کوئی اعتراضات یا تحفظات تھے تو حکومت کو آگاہ کرنا تمام سیاسی جماعتوں کا حق تھا۔ مگر یہ طرز عمل مناسب نہیں کہ باقاعدہ آغاز ہو جانے کے بعد کسی عمل میں رخنہ ڈالنے کی غرض سے اعتراض کیا جائے۔ پیپلز پارٹی سے تو یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ اپنے پانچ سالہ دور حکومت میںاس نے مردم شماری کا اہتمام کیوں نہ کیا۔ جس اتفاق رائے کا مطالبہ اب کیا جا رہا ہے ، اسکے لئے پانچ برسوں میں کوئی کوشش کیوں نہ کی گئی۔
درحقیقت ہمارے یہی رویے قومی ترقی کی راہ میں حائل رہے ہیں۔ کئی دہائیوں سے ہم کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے قائم نہیں کر سکے۔ بجلی کی بد ترین بندش کا سامنا کرتے رہے، مگر ڈیمز بنانا گوارا نہ کیا۔ابھی حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ ملک میں کرکٹ کی بحالی کی کوششیں ہوئیں تو اس پر بھی سیاست کی گئی۔ پی ایس ایل کو متنازع بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی ۔ اس کے انعقاد کو پاگل پن قرار دے ڈالا اور کھلاڑیوں کو ’’پھٹیچر‘‘ اور ’’ریلو کٹے‘‘۔ یہی حال چائنہ پاکستان اکنامک کاریڈور کا ہے جس پرپر دنیا کی نگاہیں مرکوز ہیں۔ حالیہ دورہ گوادر میں وزیر اعظم نے بتایا کہ دنیا کے54ممالک اس منصوبے میں شمولیت کے خواہاں ہیں۔ مگر ہم اپنی ترقی کے اس منصوبے پر بھی سیاست کرتے رہے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اب سی پیک پر سیاستدان کچھ ہوشمندی کامظاہرہ کررہے ہیں۔ کاش ہمارے سیاستدان قومی معاملات پرذمہ دارانہ طرز عمل اختیار کریں۔ کم ازکم حساس قومی معاملات کو سیاست کی نذر کرنے سے گریز کریں۔ دعا ہے کہ مردم شماری کی کٹھن مشق بخیریت اختتام پذیر ہو۔ اور جو اعداد و شمار سامنے آئیں انکے پیش نظر پالیسیاں تشکیل پائیں۔ ضروری ہے کہ میڈیا خاص طور پر ٹی وی چینلز اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔ میڈیا لوگوں کو مردم شماری کی اہمیت سے آگاہ کرے۔ انہیں خوش دلی سے معلومات کی فراہمی پر آمادہ کرے۔ اوراگر مردم شماری کے حوالے سے کوئی شکایات سامنے آئیں تو انکی نشاندہی بھی کرے۔

.
تازہ ترین