• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں عوامی اورانقلابی شاعر حبیب جالب کو حسب سابق دوستوں اور مہربانوں نے خوب یاد کیا۔ چند صاحب فکر نوجوانوں نے جالب کی شاعری پر بات کرنے کے لئے محفل سجائی۔ مجھے حیرانی تھی کہ اس زمانہ میں بھی خواص اوراحباب کے علاوہ نوجوان جالب کی شاعری کو قابل توجہ خیال کرتے ہیں۔اکثر نوجوانوں کو جالب کے شعر ازبر تھے اور موجودہ حالات میں جالب کی شاعری، اس وقت کی آواز لگتی ہے۔ ایک نوجوان طالبہ نے جالب کے یہ شعر سنائے؎
ذہانت رو رہی ہے منہ چھپائے
جہالت قہقہے برسا رہی ہے
ادب پر افسروں کا ہے تسلط
حکومت شاعری فرما رہی ہے
میں نے اس بی بی سے پوچھ ہی لیا کہ اس کو یہ شعر کیوں پسند آئے۔ وہ پہلے تو کچھ دیر چپ رہی پھر جواب میں ایک شعر ہی سنا دیا:
فضا نہیں ہے ابھی کھل کے بات کرنے کی
بدل رہے ہیں زمانہ کو ہم اشاروں سے
میں نے کہا بہت خوب۔ اتنے میں ہماری محفل کا ایک دوسرا نوجوان بولا۔ جناب اب کسی دن حبیب جالب کے کسی شعر کوملٹی میڈیا پر لگانے سے کارسرکار پر تنقید ہوسکتی ہے اور مقدمہ بھی بن سکتا ہے۔ اب تو ان باتوں پر بھی رپٹ درج کروائی جارہی ہے جس کے بارے میں شک ہو کہ وہ ایسا کہہ سکتا ہے! سو ایسے بہت سارے الزام میڈیا کے پردھان ایک دوسرے پر لگاتے نظر آرہے ہیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ جالب نے کس موسم اور کن حالات میں یہ رباعی نما شعر لکھے ہونگے۔ اس وقت بھی کچھ ویسی ہی کیفیت نظر آرہی ہے معاشرہ میں جو ذہانت سے سلوک ہورہا ہے وہ بھی خوب ہے۔ جب جالب نے یہ شعر کہے اس وقت ملک پر رائٹر گلڈ، ادیبوں کے ترجمان کے طور پر سرکاری آواز تھی۔ میرا خیال ہے کہ سابق فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں کا زمانہ تھا جب سرکاری طور پر ادیبوں پردست شفقت رکھنے کے لئے جمیل الدین عالی اورقدرت ا للہ شہاب نمایاں کردار ا دا کررہے تھے۔ اس زمانہ میں بھی جالب حق اور سچ کی آواز تھا اور لوگوں کو انقلاب کے لئے اکساتا رہتا تھا اور یہ بات افسرشاہی کو بہت ناگوار گزرتی تھی اوران کے ہم عصر ادیب ا ور شاعر بھی حبیب کی شاعری سے گھبراتے تھے۔ اس زمانہ میں میری بھی جالب سے کچھ کچھ شناسائی تھی اور مجھے اس کی خودداری کا احساس تھا۔
یہ سب نوجوان طالب علم من چلے سے لگتے ہیں۔ ا ن کو حالات پر اعتبارنہیں۔ جالب کو بھی کچھ ایسا ہی روگ لگا ہوا تھا۔ جالب کا زمانہ میڈیا کے حوالہ سے ایک قدامت پسند صحافت کا دور تھا مگراخباروں پر لوگوں کا اعتبار تھا۔ اب اخباروں کے ساتھ ساتھ ٹی وی چینل بھی آچکے ہیں۔ ہماری سرکار کا کہنا ہے کہ یہ سب جمہوریت کا ثمر ہے اور کیا اچھا ثمر ہے جس سے عوام کی حیثیت مشکوک اور جمہوریت کا کردار محدود ہوتا نظرآرہا ہے۔ مجھے نہیں معلوم جالب جمہوریت پر کتنا یقین رکھتا تھا۔ ویسے اس زمانہ میں تمام سیاسی تحریکیں جمہوریت کے لئے کام کرتی نظر آتی تھیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں ہر دم جمہوریت کا جاپ کرتی ہیں۔ مگران کے اندر آمرانہ روح نظر آتی ہے۔ ایک عرصہ سے مسلم لیگ اورپیپلزپارٹی نے اپنی جماعت کے اندر جمہوری انداز میں الیکشن نہیں کروائے۔بے نظیر کو شہید جمہوریت تو کہا جاتا ہے مگر وہ بھی جمہوریت کے استحکام کے لئے مہربان اورقدردان ملک امریکہ کی طرف دیکھتی تھی اور اس ہی ملک کی مدد سے سابق جنرل مشرف سے معاہدہ کرکے اپنے مقتل کا انتظام کیا۔
ہمارے پنجاب کے وزیراعلیٰ جناب وزیراعلیٰ شہباز شریف کے پسندیدہ اشعار حبیب جالب کے ہیں۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ شہبازشریف کو شاعر کی کونسی ادا پسند آگئی۔شہبازشریف عوام کو گرمانے کے لئے جب جالب کو استعمال کرتے ہیں اور اسی وجہ سے یار لوگ ہمارے خادم اعلیٰ کو انقلابی خیال کرتے ہیں۔ان کا نعرہ مستانہ ہے ’’میں نہیں مانتا،میں نہیں مانتا‘‘ پنجاب میں انقلاب تو نظر آرہا ہے۔ میاں شہبازشریف تبدیلی کے قائل نہیں۔وہ ایک انقلابی سوچ کے حامل مغرور سے حکمران ہیں۔ ان کو ترقی کے نام پر تجربات کا شوق ہے اور پنجاب کی سیاست میں ان کی ریاضت کا بہت ہاتھ ہے۔ ان کے پاس تابعدار افسروں کی ایک فوج ظفر موج ہے مگر سیاسی فراست میں وہ اپنے بھائی وزیراعظم سے ذرا کم درجہ پر ہیں۔ مرکز میں وزیراعظم کی صاحبزادی ان کی سب سے اچھی مشیر ہے اور اب آنے والے دنوں میں مریم نواز کو میدان میں آنا ہے۔ مریم نواز جو بے نظیر کی شخصیت سے بہت متاثر ہیں ان کو حبیب جالب کی شاعری سے اپنی سیاسی زندگی کا آغازکرنا چاہئے۔ اب ان کے لئے میدان میں آنا ضروری ہے مگر جمہوریت کا انتقام ان کے لئے خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔
میں اپنی سوچوں میں گم تھا کہ ایک طرف سے سوال آیا۔ ”کیا جالب جمہوریت پر یقین رکھتا تھا“ بڑا مشکل سوال ہے۔ جالب ایک شاعر، ادب کا صوفی ا ور سماج کا باغی تھا۔ اس کو جمہور کی طاقت کا اندازہ تھا مگر جمہوریت کا نظریہ کیا روپ رکھتا ہے آپ اس کے کس کس روپ پر اعتبار کریں گے۔جمہوریت میں لوگ آواز تو بلند کرسکتے ہیں مگر جمہوریت میں حکمرانوں کے کان بند اورآنکھوں پر تکبر کی چربی چڑھ جاتی ہے اور مفاد پسند طبقہ جمہوریت کی دوشیزہ کو اغوا کرکے عوام کو باور کراتا ہے کہ جمہوریت کا چال چلن درست نہیں۔ ہم سب کا خیال ہوتا ہے کہ تبدیلی جمہوریت کے ذریعہ آسکتی ہے مگر گزشتہ چند سالوں سے تبدیلی اور جمہوریت نے ہر جگہ عوام کو مایوس ہی کررہی ہے۔ مگر ایسا کیوں ہوتا ہے ؎
جاوید شاہیں کا نوحہ ہے
ایسا کیوں ہوتا ہے
کوئی کام ہونے ہی والا ہوتا ہے
محنت کا پھل ملنے والا ہوتا ہے
مگر نہیں ملتا
خوشی سے بھرا دل
اداسی سے بھرجاتا ہے
ختم ہونے والا سفر
پھر سے شروع ہوجاتا
ایسا کیوں ہوتا ہے
میں نے بات ختم کی۔ مگرسوال ا پنی جگہ ابھی بھی موجود ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ چین میں بظاہر تو جمہوریت نہیں ہے مگرانقلاب نے تبدیلی میں بہت کردارادا کیا۔ امریکہ میں جمہوریت نظر تو آرہی ہے مگر وہ اب انقلابی جمہوریت ہے اور دوسرے دنیا بھر میں امریکہ جمہوریت کے راستہ کوبند کرتا ہی نظرآیا۔ پاکستان کے لوگ جمہوریت کے چنگل میں گرفتار ہیں، ان کا منصف بھی قیدی ہے۔
یہ منصف بھی تو قیدی ہیں ہمیں انصاف کیا دیں گے
لکھا ہے ان کے چہروں پر جو ہم کو فیصلہ دیں گے
بس آج کے حالات اور معاملات کی اس سے بہتر تفسیر نہیں۔ اس جمہوری دور میں عوام کی حکومت تو ہے جس میں حکمران سہولت کار ہیں ا ور جمہوریت کے درخت کا پھل اشرافیہ ہڑپ کررہی ہے اور عوام کو سایہ بھی میسرنہیں۔
منافقت کا نصاب پڑھ کر محبتوں کی کتاب لکھنا
بڑا کٹھن ہےخزاں کے ماتھے پر داستان گلاب لکھنا
سوہمارا حبیب اور عوام کا جالب بھی سیاست کے بازار میں بکتا رہا ا ور دل کو جلاتا رہا اور ہم ا ور تم بھی کچھ ایسا ہی کررہے ہیں۔ کتنی مدت سے ظلم بھی ہے اورقانون بھی مگر کیا کریں۔
ہماراشاعر درد دل کچھ اسطرح بیان کرتا......
مدتیں ہوگئیں خطا کرتے
شرم آتی ہے اب دعا کرتے


.
تازہ ترین