• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک بھر کے 63اضلاع میں خانہ شماری مکمل ہونے کے دعوے کی عملی کیفیت کے مشاہدے و تجربے کے مدنظر 18؍مارچ سے شروع ہونے والی مردم شماری کے حوالے سے بعض ایسے سوالات اور اندیشے سر ابھار رہے ہیں جن کی بازگشت جمعہ کے روز میڈیا میں عام لوگوں کے تاثرات، سینٹ میں پیپلزپارٹی اور ’’متحدہ‘‘ کی طرف سے آنے والے تحفظات اور بعض سیاسی رہنمائوں کے بیانات میں نظر آتی ہے۔ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے اس دور میں بین الاقوامی سطح پر موجود معیارات نے جن کاموں کو آسان بنادیا ہے وہ وطن عزیز میں سپریم کورٹ کے احکامات آنے کے بعد اگر کئے بھی جاتے ہیں تو تھانوں میں انچارجوں کی تبدیلی، متعلقہ عملے کے پاس برسوں پرانے نقشوں کی موجودگی، کچی پینسلوں سے اندراجات جیسے لطیفے سرزد ہونے لگتے ہیں اور متعدد چھوٹے بڑے شہروں میں سیکڑوں فلیٹوں والے پلازوں سمیت ہزاروں مکانات ’’ش‘‘ کے نشان سے محروم رہ جاتے ہیں۔ خانہ شماری اور مردم شماری ایسا عمل ہے جس سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کی بنیاد پر قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں اور بلدیاتی یونٹوں کے ازسرنو تعین کے علاوہ وسائل اور منصوبوں کے نئے اہداف نشان زد کرنے میں مدد ملتی ہے۔ خانہ شماری کے دوران کئی کوتاہیاں سامنے آئی ہیں۔ انہیں سامنے رکھ کر چیف کمشنر شماریات نے جو یقین دہانیاں کرائیں وہ حوصلہ افزا ہیں۔ تاہم من حیث القوم ہمیں اپنی نجی اور قومی ذمہ داریوں کے اس فرق پر ضرور غور کرنا چاہئے کہ ایک فرد کے معمولی سفر کیلئے بھی کچھ پیشگی تیاریاں ضروری سمجھی جاتی ہیں۔ مگر خانہ شماری اور مردم شماری جیسی بڑی قومی ذمہ داری کی ادائیگی کے حوالے سے پیشگی تیاری کا یہ پہلو نظر سے اوجھل رہتا ہے کہ رہائش گاہوں، پلاٹوں اور افراد سے متعلق سرکاری ریکارڈ کا بڑا حصہ کمپیوٹروں میں محفوظ ہو اور گھر گھر جاکر اندراجات کا مقصد انہیں اپ ڈیٹ کرنا ہو۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مردم شماری کے عمل کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے پر توجہ دی جائے اور ضروری ڈیٹا محفوظ کرتے رہنے کا عمل مسلسل جاری رکھا جائے ۔

.
تازہ ترین