• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مارچ کا مہینہ ہماری قومی زندگی میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے ۔یوں تو مارچ کے مہینے میں کئی اہم واقعات رونما ہوئے لیکن میری رائے میں جن تین اہم ترین واقعات نے مارچ کو ہماری تاریخ میں سنگ میل ماہ کی حیثیت دی وہ ہیں قرارداد لاہور جسے بعدازاں قرارداد پاکستان کہاگیا، قرارداد مقاصد جو 12مارچ 1949ء کو منظور ہوئی اور ہمارے 1956ء اور 1973ء کے دساتیر کا حصہ بنی اور تیسرا اہم ترین واقعہ یا کارنامہ 1956ء کے آئین کی منظوری تھی جسے 23مارچ 1956ء سے نافذ کیا گیا۔ان تینوں کارناموں نے ہماری تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کئے اور قومی زندگی کے دھارے کا رخ متعین کرنے میں اہم کردار سرانجا م دیا۔
عام طور پر قرارداد پاکستان کو 23مارچ سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن میں روزنامہ جنگ میں 1987ءاور 89-1988ء میں کئی بار وضاحت کر چکا ہوں کہ قرارداد پاکستان اگرچہ 23مارچ کو مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ لاہور میں پیش کی گئی لیکن اسے منظور ی 24مارچ کو ملی ۔ اگر مسلم لیگ کے لیڈران اور قائد اعظم ؒ چاہتے تو 24مارچ کو قرارداد پاکستان کا دن قرار دے دیتے لیکن یہ انہی کا فیصلہ تھا کہ اسے 23مارچ سے منسوب کیا جائے ۔اسی طرح پاکستان پندرہ اگست 1947ء کو وجود میں آیا لیکن ہماری قیادت کا فیصلہ تھا کہ یوم آزادی چودہ اگست کو منایا جائے۔ ظاہر ہے کہ قرارداد لاہور قائد اعظم ؒاور مسلم لیگ کی اعلیٰ ترین قیادت کی نگرانی میں ڈرافٹ ہوئی ، تشکیل پائی اور انہی کی نگرانی میں مسلم لیگ کے اجلاس میں شیر بنگال مولوی فضل الحق نے پیش کی اور انہی کے سامنے 24مارچ کو منظور ہوئی اس لئے اس فیصلے کا اختیار بھی انہی کے پاس تھا کہ اسے پیش ہونے والے دن یا منظور ہونے والے دن سے منسوب کریں ۔یقیناً ہماری ذہین، بصیرت مند اور تجربہ کار قیادت کے پیش نظر کچھ وجوہ ہوں گی جن کی بنیاد پر قرارداد لاہور کے لئے 23مارچ کا دن مخصوص کیا گیا ۔ آپ کو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ خود مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے 22فروری 1941ء کو یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس قرارداد کو جسے ’’قرارداد پاکستان ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے ہر سال 23مارچ کو منایا جائے گا اور اس روز اس قرارداد کی وضاحت اور تشہیر کی جائے گی ۔اسی سال جب مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس 15-12اپریل 1941ء مدراس میں منعقد ہوا تو قرارداد لاہور کو ایک ریزولیوشن کے ذریعے مسلم لیگ کے مقاصد کا حصہ بنا لیا گیا ۔ ( فائونڈیشن آف پاکستان شریف الدین پیرزادہ جلد دوم صفحہ 72-371) اسی اجلاس میں 14اپریل کو اپنے صدارتی خطے میں قائداعظم ؒ نے بار بار زور دیا کہ وہ پاکستان حاصل کئے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے اور یہ کہ قراداد پاکستان لیڈمارک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان ہمارے لئے زندگی موت کا مسئلہ ہے ۔(ص 388) اسے برطانوی حکومت کو تسلیم کر لینا چاہئے ۔ ہم کسی قیمت پر بھی فلسطین کی تاریخ کو دہرانے کی اجازت نہیں دیں گے ‘‘۔
لطف کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں دانشوروں کا ایک گروہ مسلسل پراپیگنڈہ کر رہا ہے کہ قائد اعظم ؒنے کبھی اپنی تقریروں میں آئیڈیالوجی کا لفظ استعمال نہیں کیا اس جھوٹ کو رد کرنے کےلئے صرف اس اجلاس میں قائداعظم ؒکا صدارتی خطبہ پڑھ لیں جس میں انہوں نے صرف ایک پیرا گراف میں مسلم لیگ کی آئیڈیالوجی اور آئیڈیالوجی برائے آزاد مملکت کے الفاظ دوبار استعمال کئے ۔یہ کہنا کہ نظریہ پاکستان کی اصطلاح قیام پاکستان کے بعد کی ایجاد ہے ۔تاریخ کو مسخ کرنے اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے مترادف ہے۔ اس کے بعد قیام پاکستان تک قائداعظم ؒ آئیڈیالوجی آف پاکستان یا مسلم قومیت کے تصور کا ذکر بار بار کرتے رہے۔
قیام پاکستان کے بعد قرارداد پاکستان خاصی بحث اور اختلاف کا موضوع رہی ہے اور جی ایم سید کے جئے سندھ سے لیکر شیخ مجیب الرحمن، مولوی فضل الحق اور مولانا بھاشانی اور کبھی کبھی پختونستان کا نعرہ بلند کرنے والے عام طور پر اپنے خوابوں کی تکمیل کے لئے اسی قرارداد کا سہارا لیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک اس قرارداد کے مطابق صوبوں کو آزاد مملکتیں ہونا تھا جبکہ ان کے مخالفین کا موقف تھا کہ 46-1945ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ کے منتخب اراکین اسمبلی نے 1946ء کے دہلی کنونشن میں آزاد مملکتوں (States)کو دفن کر دیا تھا اور مشرقی و مغربی پاکستان پر مشتمل ایک ریاست کا مطالبہ کیا تھا۔ بلاشبہ اگر قرارداد لاہور کے متن کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں آزاد ریاستوں کا تصور ملتا ہے اور اگر اسے بنظر غائر پڑھا جائے تو مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل دو آزاد ریاستوں کا تصور ابھرتا ہے، یعنی بنگال اور دوسرے وہ صوبے جو مغربی پاکستان کا حصہ ہے، ان دونوں یونٹوں کو مقتدر (Sovereign)اور آزاد ہونا تھا اور صوبوں کو اٹانومی حاصل ہونا تھی لیکن جہاں تک قائد اعظم ؒکا تعلق ہے وہ واضح طور پر قرارداد لاہور کو ایک ریاست کا مطالبہ اور منشور کہتے تھے ۔لگتا ہے جب مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی نے کئی ڈرافٹوں یعنی مسودوں کو ایک قرارداد میں یکجا کرنے کی کوشش کی تو اس میں کنفیوژن پیدا ہوا ۔ آج ہم ریاست (State)کو مکمل طور پر آزاد ملک سمجھتے ہیں لیکن اس دور میں یہ لفظ خودمختار صوبوں کے لئے بھی استعمال ہوتا تھا ۔ مسلم لیگ کے ممتاز لیڈر حسین امام کے بقول کہ اس وقت کی مسلم لیگی قیادت ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے دستور سے متاثر تھی جس میں ریاستوں کو داخلی معاملات میں مکمل آزادی حاصل ہے لیکن امریکہ کی پچاس ریاستیں فیڈریشن کی لڑی میں پروئی ہوئی ہیں۔شیر بنگال ورکنگ کمیٹی کے اس اجلاس میں شامل نہیں تھے جس نے یہ قرارداد ڈرافٹ کی لیکن دوسرے دن سیدھے مسلم لیگ کے اجلاس میں پہنچے اور قرارداد پیش کرنے کا تاریخی اعزاز حاصل کیا۔ان کے متعدد بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ فضل الحق کے ذہن میں اس قرارداد کا مطلب دو آزاد ریاستیں تھیں لیکن قائداعظمؒنے اسی دن اخباری رپورٹروں سے گفتگو میں یہ بیان دیکر قرارداد کے مقدر کا فیصلہ کر دیا کہ ہم صرف ایک ملک کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔(بحوالہ جناح آف پاکستان ازسٹینلے والپرٹ صفحہ نمبر 185) قائداعظمؒ نے اپنے اس موقف کو بعدازاں گاندھی کے نام خطوط میں بھی واضح کیا۔
مارچ کے حوالے سے دوسرا اہم واقعہ قرارداد مقاصد کی منظوری تھی جسے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے 12مارچ 1949ء کو منظور کیا ۔اسی پس منظر میں اسے دستور کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے ۔اسمبلی میں چند ایک غیر مسلم نمائندوں نے اس قرارداد پر کڑی تنقید کی ۔انہیں اعتراض اس بات پر تھا کہ اس قرارداد میں اقتدار اعلیٰ کو اللہ تعالیٰ کی ملکیت قرار دیا گیا ہے جس کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ پاکستان میں قرآن و سنت کے خلاف قانون نہیں بن سکے گا۔عام طور پر مغربی جمہوریتوں میں جنہیں ہم سیکولر جمہوریتیں کہتے ہیں عوام کو ’’اقتدار اعلیٰ‘‘ قرار دیا جاتا ہے اور اس حوالے سے ان کے منتخب کردہ نمائندوں کو ہر قسم کا قانون بنانے کی مکمل آزادی ہوتی ہے ۔اسی آزادی کا سہارا لیکر بعض ممالک میں ہم جنس پرستی پر بھی قانونی مہرلگادی گئی ہے ۔
ظاہر ہے کہ اسلام کی بنیاد پر بننے والے مسلمان اکثریتی ملک میں پارلیمنٹ کو مادر پذر آزادی نہیں دی جاسکتی۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ قیام پاکستان سے قبل جب قائداعظم ؒ پیر آف مانکی شریف سے ملنے صوبہ سرحد گئے تو پیر صاحب کے سوال کے جواب میں قائداعظمؒ نے زور دیکر کہا کہ پاکستان میں کبھی بھی قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہیں ہو سکے گی ۔ قیام پاکستان سے قبل قائداعظمؒ نے لاتعداد بار وضاحت کی کہ ہمارا آئین قرآن ہے اور پاکستان کے آئین کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ آج اگر آپ ان حضرات کے بیانات پڑھیں جو قرارداد مقاصد کی مخالفت میں ہلکان ہو رہے ہیں تو آپ کو ان میں وہی دلائل نظر آئیں گے جو دستور ساز اسمبلی میں غیر مسلم اراکین نے دیئے تھے ۔لطف کی بات یہ ہے کہ یہ روشن خیال دانشور دعویٰ کرتے ہیں کہ اس وقت کی کابینہ کے رکن جوگندرناتھ منڈل قرارداد منظور ہوتے ہی ہندوستان بھاگ گئے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قرارداد مقاصد12مارچ 1949ء کو منظور ہوئی اور جوگندر ناتھ منڈل نے 16ستمبر 1950ء کو ہندوستان ہجرت کی۔ یعنی وہ قرارداد کے منظور ہونے کے ڈیڑھ برس بعد تک کابینہ کے رکن رہے۔
مارچ کو تیسرا اعزازیہ حاصل ہے کہ ہمارا پہلا دستور 23مارچ 1956ء کو نافذ کیا گیا۔اگرچہ دستور سازی میں تقریباً 9برس ضائع کر دینا ناقابل معافی جرم تھا لیکن بہرحال یہ ایک بہت بڑا کارنامہ تھا جس میں متحدہ، جمہوری اور اسلامی پاکستان کی ضمانت موجودتھی ۔اس دستور میں پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قراردیا گیا تھا اور اسے مشرقی و مغربی پاکستان کے منتخب اراکین نے مجبور کیا تھا ۔میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ اگر اکتوبر 1958ء میں سکندر مرزا اور ایوب خان مارشل لاء لگا کر اس دستور کو منسوخ نہ کرتے اور عام انتخابات ہو جاتے تو مشرقی پاکستان کبھی بھی علیحدگی کی راہ پر نہ چلتا ۔اس مارشل لاء نے دونوں صوبوں کی منظوری سے بننے والے آئین کو منسوخ کرکے وہ بنیاد ہی ختم کر دی جس پر پاکستان کھڑا تھا۔ جمہوریت اور دستور قائم رہتے تو صوبے اپنے اختلافات آئینی ڈھانچے کے تحت رفع کر لیتے لیکن جب آئین کو پامال کرکے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی تو بنگالیوں کی حصول اقتدار کی شمعیں بجھ گئیں اور علیحدگی کے رجحانات زور پکڑ گئے ۔



.
تازہ ترین