• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسٹار ٹریک..... اج دی کہانی..... ندیم شبنم..... صبح بناکا شام بناکا..... ہاکی..... نازیہ ذوہیب..... گورنمنٹ کالج..... ٹی ڈی کے کیسٹ..... والوو بس..... اداس نسلیں..... بروک شیلڈز..... وی سی آر..... پیجارو..... نیلما حسن..... امروز..... الف لیلہ..... اور جوانی کی محبت ..... ابھی کل کی بات ہے!
بچپن سے جوانی، ادھیڑ پن سے بڑھاپا اور پھر دی اینڈ۔ یہ ہے کل کہانی۔ میرے سامنے ایک تصویر ہے، ندیم اور شبنم کی فلم ’’دہلیز‘‘ کا پوسٹر، اسّی کی دہائی میں یہ فلم میں نے سینما میں دیکھی تھی، شبنم اپنے جوبن پر تھی، جس کی سانسوں کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ نہ جانے کتنوں کے سانس خراب ہو جاتے تھے، آج اسی شبنم کی تصویر اخبار میں دیکھی، دل ہی بجھ گیا، چاند کو گویا گرہن لگ گیا ہو۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر پروردگار بڑھاپے کی اذیت سے بچا لیتا، عمر یہی رہتی مگر جوانی نہ ڈھلتی۔ رب کی مگر رب ہی جانے۔ وقت کتنا کم ہے انسان کے پاس۔ مختصر سی زندگی میں نام بھی بنانا ہے، پیسہ بھی کمانا ہے، محبت بھی کرنی ہے، نفرتیں بھی پالنی ہیں، بالآخر فوت بھی ہونا ہے۔
ابھی کل کی بات لگتی ہے، میں اپنے گھر کے پاس گراؤنڈ میں ہاکی کھیلا کرتا تھا، یوں لگتا تھا جیسے یہ وقت ہمیشہ یونہی رہے گا، گرمیوں کی شام روزانہ پانج بجنے کا انتظار، پانج بجتے اور میں میدان میں موجود ہوتا، ہاکیاں تقسیم کی جاتیں، کھلاڑی ’’بانٹے‘‘ جاتے، کھیل کے بعد ہم پسینے میں شرابور ہو کر گھر لوٹتے، پھر پڑھنے کا عذاب، میٹرک کے امتحان کی تیاری، سوچتے تھے جانے وہ وقت کب آئے گا جب یوں پڑھائی نہیں کرنی پڑے گی۔ وہ وقت بھی گزر گیا۔ اُس وقت پی ٹی وی پر الف لیلہ کا بے چینی سے انتظار کیا جاتا تھا، یوں لگتا تھا جیسے بچپن یونہی چلتا رہے گا اور الف لیلہ کی قسطیں کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ لیکن الف لیلہ ہمارے سامنے ہی ختم ہوا، اُس کی آخری قسط مجھے آج بھی یاد ہے، وہ بالکل مختلف تھی، اور گورنمنٹ کالج کی وہ لڑکی بھی یاد ہے جس سے بات کرنے کی کبھی ہمت نہیں ہوئی، جس کا نام بھی نہیں معلوم مگر اس کے کانوں کی گول گول بالیاں اب بھی یاد ہیں۔ گورنمنٹ کالج کے چار سال شیطان کی آنت کی طرح طویل ثابت ہوئے مگر بالآخر ختم ہوگئے۔ کالج کے جن دوستوں سے بروک شیلڈز کے حسن پر تبادلہ خیال ہوتا تھا اُن میں سے کئی بیرون ملک جا بسے، کچھ سے رابطہ ٹوٹ گیا، اکا دکا اب بھی ملتے ہیں مگر طویل وقفوں کے بعد۔ زندگی کی دوڑ میں ہر کوئی سرپٹ بھاگ رہا ہے، سب کو اختتامی نشان تک پہنچنے کی جلدی ہے یا پھر یوں کہئے کہ اس مختصر زندگی میں زیادہ سے زیادہ سمیٹ لینے کی تمنا ہے، المیہ مگر یہ ہے کہ جوں جوں آپ آگے بڑھتے ہیں، کامیابیو ں کے جھنڈے گاڑتے ہیں توں توں آپ اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ انسان بھی کس قدر بے بس ہے۔
اس وقت کو ہم روک نہیں سکتے، البتہ اسے بھرپور طریقے سے استعمال ضرور کر سکتے ہیں، اچھے دوست بنا کر، محبتیں سمیٹ کر، اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھ کر۔ ہر کوئی یہی کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر ہر کسی کا ’’اینڈ رزلٹ‘‘ یہ نہیں ہوتا۔ ہم اس سفاک دنیا کے بکھیڑو ں میں الجھ کر اس مختصر زندگی کو برباد کر بیٹھتے ہیں۔ جب ہم اپنی زندگی پر مُڑ کر نظر ڈالیں تو یہ اطمینان ہو تاہے کہ ایک ایسی فلم تھی جو بیک وقت ایکشن، رومانس اور طنز و مزاح سے بھرپور تھی، ایسی نہیں تھی جس میں ہیرو جوانی سے لے کر بڑھاپے تک فیکٹری چلا کر نوٹ ہی گنتا رہتا ہے۔ زندگی کا لطف تب ہے جب اِس میں پچھتاوے کم سے کم ہوں، کوئی حسرت دل میں نہ رہے کہ کاش اگر میں یوں کر لیتا تو یوں ہو جاتا۔ ہر وہ فیصلہ جو آپ نے خود کیا اُس سے بہتر ہے جو آپ نے کسی دوسرے کے مشورے سے کیا، نتائج جو کچھ بھی رہے ہوں، پچھتاوا نہیں ہوتا۔ سو، جس سے محبت کریں اسی سے اظہار کریں وگرنہ وقت تو پر لگا کر اُڑ ہی رہا ہے، کیا فائدہ اگر محبوب سے اُس وقت وصال ہو جب وصل کی شب ہی کالی ہو۔ اب بھی اگر اس اظہار میں کوئی امر مانع ہے تو ایک نامعلوم شاعر کی لکھی ہوئی انگریزی نظم کا ترجمہ حاضر ہے، جذبات کی اس سے بہتر عکاسی ممکن نہیں:
’’اگر تم مجھ سے کبھی محبت کرنے کا ارادہ رکھتی ہو تو مجھ سے محبت ابھی کرو، جبکہ میرا دل نرم جذبات سے آشنا ہے، اور جذبات کی اسی وادی سے محبت کا چشمہ پھوٹتا ہے۔ مجھ سے محبت کرنے کا یہی وقت ہے جبکہ میں نیلے آسمان تلے زندہ ہوں۔ میرے مرنے کا انتظار نہ کروکیونکہ پھر سرد سنگ ِ مرمر پر سلگتے جذبات کا اظہار کندہ کرنے کا کیا فائدہ؟ جان ِ من، اگر تم میرے لئے میٹھی سوچ رکھتی ہو تو میرے کانوں میں مدھ بھری سرگوشی کیوں نہیں کرتیں؟ کیا تم نہیں جانتیں کہ یہ سرگوشی میری زندگی کو پرکیف بنا دے گی، اور میں خوشی سے اتنا سرشار ہوجائوں گا جتنا کوئی ہوسکتا ہے۔ اگرتم انتظار کرتی رہیں یہاں تک کہ میں سوجائوں گا، کبھی نہ جاگنے کے لئے، اور ہمارے درمیان مٹی کی دبیز تہہ حائل ہو جائے گی، اور میں تمہاری آواز کبھی نہیں سن سکوں گا۔ اگر تم جانتیں کہ کوئی محبت کے رسیلے پانی کی پیاس میں جاں بلب ہے تو کیا تم اُس کی پیاس بجھانے میں پھر بھی تامل سے کام لیتیں؟
کیا تمہارے قدم تذبذب کا شکار رہتے؟ ہمارے ارد گرد نرم جذبات رکھنے والے دل ہیں جو محبت کے پیاسے ہیں۔ اُنہیں اس سے محروم کیوں رکھا جائے جس کی چاہت فطرت نے اُن میں سب چیزوں سے بڑھ کر بھردی ہے؟ جب میں اس خاک کا حصہ بن جائوں گا تو مجھے تمہارے آتشیں لمس کی ضرورت نہیں ہوگی، نہ ہی مجھے تمہاری محبت اور محبت بھرے بوسوں کی، جبکہ میں اپنی قبر میں لیٹا ہوں گا۔ چنانچہ اگر تم مجھ سے کچھ محبت کرتی ہو، چلو تھوڑی ہی سہی، تو مجھے ابھی بتائو جبکہ میں زندہ ہوں۔ میں اس خزانے کو اپنے سینے سے لگا لوں گا۔‘‘
یہ مختصر سی زندگی محبت سے عبارت ہے، محبت کا پچھتاوا چین نہیں لینے دیتا، اگر وقت ہے تو اِس کا مداوا کرلیں۔


.
تازہ ترین