• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پانچ ریاستوں کے انتخابات، خاص طور پر یوپی اور اُترا کھنڈ میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بھاجپا/بی جے پی) کی زبردست فتح نے بھارتی سیاست میں آئندہ سات برسوں کے لئے وزیراعظم مودی کا سکہ بٹھا دیا ہے۔ اکثریتی ہندو قوم پرستی کے زور پہ مودی نے بی جے پی کے حلقۂ اثر کو اب تمام ہندو جاتیوں تک پھیلا دیا ہے، جبکہ ترقی اور اچھی حکومت کے ایجنڈے نے مخالفین کی ہوا نکال دی ہے۔ اس کے باوجود کہ کانگریس نے مہاراجہ امریندر سنگھ کی قیادت میں پنجاب میں حکمران اکالی دل اور بی جے پی کے اتحاد کو شکستِ فاش دی ہے اور گوا اور مانی پور کی چھوٹی ریاستوں میں بھی یہ بی جے پی سے آگے رہی۔ مگر حکومتیں بی جے پی ہی نے پانچ میں سے چار ریاستوں میں بنائی ہیں۔ لیکن اصل میدان تو یوپی میں سجا جو بھارت کی آبادی کا چھٹا حصہ (20 کروڑ) ہے۔ یہاں 2014ء کے عام انتخابات میں مودی نے 80 لوک سبھا کی نشستوں میں سے 57 جیتی تھیں اور اب آسام کے بعد شمال مشرق کی ریاست منی پور میں بھی اس نے اپنی حکومت بنا کر پیر جما لئے ہیں۔ مودی کے مقابلے میں کوئی قومی سطح کا لیڈر نہ تھا اور چیف منسٹر اکھلیش یادیو اور راہول گاندھی کی جوڑی ٹھس ہو کر رہ گئی۔ بھاجپا کی ہندتوا کی لہر کے سامنے سماج وادی پارٹی (SP) اور کانگریس کا اتحاد تھا جو دوسری پسماندہ جاتیوں خاص طور پر یادیو اور مسلمانوں کی حمایت رکھتا تھا اور پھر بہوجن سماج پارٹی (BSP) کی مایاوتی تھیں جو دلتوں اور مسلمانوں کو ساتھ ملا کر میدان میں تھیں۔ لگتا ہے کہ مودی نے جاتی واد اور پری وار واد کی قوتوں (کانگریس، سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی) کا بھرکس نکال دیا ہے۔
بابری مسجد کے انہدام اور رام جنم بھومی مندر کی تعمیر سے ہندو انتہاپسندی کی لہر کے پیدا ہونے اور منڈل کمیشن کے نچلی جاتیوں کو اُن کا جائز مقام دینے سے جاتی واد سیاست کو فروغ ملنے سے سیاست میں جو محاذ آرائی پیدا ہوئی تھی، وہ اب جاتی واد کی سیاست کی شکست، سیکولر قوتوں کی پسپائی اور کانگریس کے مسلسل زوال کے ہاتھوں اک نئی نہج پر پہنچ گئی ہے۔ اب راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (RSS) اور اُس کے ہندو پری وار کی فرقہ وارانہ تنظیمیں (جن میں بی جے پی سب سے آگے ہے) بھارت میں جس ہندو راشٹرا یا اکثریتی ہندو راج کے قیام کے ایجنڈے پر کام کر رہی تھیں، اُنھیں وہ اب حاصل ہوا چاہتا ہے۔ لیکن مودی اب زیادہ زور غریبوں پہ دیں گے تاکہ کانگریس سے ’’غریبی ہٹائو‘‘ کا نعرہ بھی چھین لیں اور قومی ترقی کے ایجنڈے کو ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس (ترقی)‘‘ کے نعرے سے آگے بڑھائیں۔ انتخابی مہم کے شروع میں تو اُنھوں نے لائن آف کنٹرول کے پار نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کا ذکر کیا اور پنجاب میں پانیوں کا مسئلہ چھیڑا لیکن یہ چلا نہیں۔ پھر اُن کا زور یوپی میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کی ’’غنڈہ گردی اور بھرشٹا چار‘‘ پر رہا۔ مودی نے فرقہ وارانہ تعصب سے کام لیتے ہوئے مسلمانوں کے قبرستانوں کے مقابلے میں شمشان گھاٹوں کو نظرانداز کرنے اور ہندو پانی، مسلم پانی کی طرح ہندوئوں سے بھی برتی جانے والی تفریق کو اُچھالا۔ لیکن اُن کا زور ترقی کے ایجنڈے اور غریبوں کی حالت سدھارنے پر رہا۔ یہاں تک کہ یہ نعرہ بھی خوب لگایا گیا کہ ’’غریب، غریب، ایک سمان، ہندو ہو یا مسلمان‘‘ اس کے باوجود کہ مسلمان یوپی کی آبادی کا 19.2% ہیں (3 کروڑ 84 لاکھ) اور صوبائی اسمبلی کی 130 نشستوں پر اُنھیں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ باہمی تقسیم کے باعث مسلمان اُمیدوار صرف 25 نشستوں پہ ہی جیت سکے۔ اور دیوبند جیسے مسلم گڑھ میں بھی ہندو انتہاپسند جیت گئے۔ یوں نچلی جاتیوں اور مسلمانوں کے اتحاد کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی۔ کانگریس کی حالت تو اتنی خراب ہوئی ہے کہ نہرو خاندان کی امیٹھی میں چار آبائی نشستوں میں سے وہ ایک بھی حاصل نہ کر پائی۔ اور اب راہول گاندھی کی قیادت سے سبھی مایوس نظر آتے ہیں۔
دلی میں اپنی فتح کا جشن مناتے ہوئے بی جے پی کے صدر امیت شاہ اور مودی نے نہ تو رام مندر کی تعمیر کا کوئی ذکر کیا اور نہ ہی ہندو قوم پرستی کے کسی نعرے کو دہرایا ہے۔ لگتا ہے کہ اپنا ہندو حلقۂ انتخاب مستحکم کر کے وہ زیادہ کھلے پروگرام کی طرف جائیں گے۔ اب 2019ء کے انتخابات میں اُن کے سامنے کوئی نہیں اور وہ بڑے آرام سے 2024ء تک راجدھانی پہ یک و تنہا براجمان رہیں گے۔ غالباً اندرا گاندھی کے بعد وہ مردِ آہن بن کر اُبھرے ہیں اور وہ اپنی پارٹی، دلی کے بابوئوں اور بھارتی مقتدرہ سے بالاتر ہو گئے ہیں۔ اُن کا اُبھار بالکل ویسا ہی ہے جیسے ترکی میں اردوان کا۔ اب لگتا ہے کہ وہ اپنے قومی و علاقائی اور عالمی ایجنڈے کی جانب راغب ہوں گے۔ اور زیادہ یکسوئی سے خطے کی طرف توجہ دیں گے۔ چین بھارت کا تجارت میں سب سے بڑا حصہ دار ہے اور اس کے ’’ایک سڑک، ایک راہداری‘‘ کے منصوبے میں طوعاً و کرہاً شرکت کے سوا بھارت کے پاس چارہ نہ ہے۔ اسی طرح چین چاہتا ہے کہ بھارت، چین، پاکستان اکنامک کاریڈور میں شامل ہو جائے۔ جون میں بھارت اور پاکستان شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے باقاعدہ رُکن بننے جا رہے ہیں۔ اور چین کا وافر سرمایہ اب امریکہ کی بجائے ایشیا کا رُخ کرے گا۔ ایسے میں بھارت کیسے خود کو فقط ٹرمپ کی لن ترانیوں کے سہارے چین مخالف محاذ میں بہت دور تک جا سکتا ہے جو اُس کے قومی ترقی کے ایجنڈے سے لگا نہیں کھاتا۔ پاکستان بھی اندرونی دہشت گردی سے نبرد آزما ہے اور افغانستان کا عدم استحکام ہماری شمال مغربی سرحد پہ مسلسل تنائو اور توجہ کا باعث رہے گا۔ ہمارے پاس بھی چارہ نہیں کہ ہم دوسرا محاذ گرم نہ کریں۔ پچھلے دنوں سے کچھ اچھے اشارے مل رہے ہیں۔ خطے کے بارے میں خوش قسمتی سے وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعظم مودی کا وژن ایک سا ہی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ دونوں وزرائے اعظم بات چیت کا ڈول پھر سے ڈالیں۔ لیکن ایک طاقتور مودی سے بات کرنے کے لئے تمام ریاستی اداروں کو وزیراعظم کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ کیا ایسا ہوگا؟ دلی شاید اسی کا منتظر ہے کہ کس سے بات کی جائے؟



.
تازہ ترین