• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
19 سال بعد پاکستان میں مردم و خانہ شماری کا عمل جاری ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اس ماحول میں مردم و خانہ شماری کا انعقاد ایک بہت بڑا کارنامہ ہے ، جسے پوری دنیا میں سراہا جائے گا ۔ اس سے نہ صرف پاکستان درست اعداد و شمار کی بنیاد پر اپنی ترقی کے لئے منصوبہ بندی کر سکے گا بلکہ عالمی برادری میں پاکستان کا امیج بہتر بنانے میں مدد ملے گی لیکن ان تمام معاملات کا انحصار اس بات پر ہے کہ مردم و خانہ شماری کا عمل متنازع نہ ہو اور اس کے نتائج سب کے لئے قابل قبول ہوں ۔ اگر ایسا نہ ہوا تو سب کچھ ہماری توقعات کے برعکس ہوسکتا ہے اور پاکستان ایک تباہ کن سیاسی ’’ پولرائزیشن ‘‘ کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے ۔ لہذا مردم و خانہ شماری کو کامیاب اور قابل قبول بنانا انتہائی ضروری ہے ۔
پہلے مرحلے میں تین دن کی خانہ شماری کے دوران مردم و خانہ شماری کرنے والے عملے کی جانب سے بہت سی بے قاعدگیوں کی نشاندہی ہوئی ہے ۔ جن کی وجہ سے اس عمل کو مشکوک بنانے کا جواز پیدا ہو گیا ہے ۔ صرف سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں نے مردم و خانہ شماری کے عمل پر اعتراضات نہیں کئے بلکہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور ان کی صوبائی حکومت نے بھی باقاعدہ طور پر تحفظات کا اظہار کردیا ہے ۔ سندھ کے چیف منسٹر ہاؤس میں شکایات سیل بھی قائم کر دیا گیا ہے ۔ سندھ کے لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ مردم و خانہ شماری میں ہونے والی بے قاعدگیوں کے حوالے سے چیف منسٹر ہاؤس میں شکایات سیل کو آگاہ کریں ۔ سندھ میں سنگین بے قاعدگیوں کی نشاندہی ہوئی ہے ۔ بعض علاقوں میں مردم شماری کا عملہ خانہ شماری کے فارم کچی پینسلوں سے پر کر رہا تھا ۔ یہ ایک سنگین اور شعوری بے قاعدگی ہے کیونکہ حکومت کی طرف سے عملے کو کچی پینسلیں فراہم نہیں کی گئی ہیں ۔ عملے کے افراد جان بوجھ کر یہ کچی پینسلیں اپنے ساتھ لے گئے تھے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں ایسا کرنے کے لئے کسی نے کہا ہو گا تاکہ فوجی اور پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں فارم پر کرلیا جائے اور بعد ازاں اس میں کچی پینسل کے اندراجات مٹا کر اپنی مرضی کے اندراجات کئے جائیں ۔ اس سے سیاسی مداخلت کا بھی عندیہ ملتا ہے ۔
کراچی اور حیدر آباد میں بعض دیگر شکایات بھی موصول ہوئی ہیں ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ، سندھ کابینہ کے ارکان اور سندھ کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے پنسل سے فارمز پر کرنے پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے ایک اور بے قاعدگی کی بھی نشاندہی کی ہے ۔ وہ یہ ہے کہ کثیر المنزلہ عمارتوں پر خانہ شماری کا صرف ایک نمبر الاٹ کیا جارہا ہے حالانکہ وہاں ایک سے زیادہ گھرانے رہائش پذیر ہیں ۔ سندھ کابینہ کے ارکان امداد علی پتافی ، فیاض بٹ اور جام اکرام اللہ دھاریجو کا یہ بھی کہنا ہے کہ زیر تعمیر خالی عمارتوں کو ایک ساتھ کئی کئی نمبرز الاٹ کئے جا رہے ہیں حالانکہ وہاں کوئی آبادی نہیں ہے ۔ مختلف سیاسی جماعتوں نے یہ بھی شکایت کی ہے کہ کچی آبادیوں اور پسماندہ علاقوں میں مرد گھروں پر نہیں ہوتے ۔ خواتین مردم و خانہ شماری کے عملے سے بات نہیں کرتیں یا درست طریقے سے بتا نہیں سکتیں۔ سرکاری عملہ ایسے گھروں پر ایک نمبر الاٹ کرکے چلا جاتا ہے اور فارم میں لکھا جاتا ہے کہ یہاں کوئی نہیں رہتا ۔ یہ اگرچہ معمولی شکایات ہیں لیکن ایسی شکایات بڑھتی گئیں تو مردم و خانہ شماری کے عمل کے بارے میں سوالات جنم لے سکتے ہیں ۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ کچھ عرصہ پہلے ہمارے ملک میں خانہ شماری ہوئی تھی ۔ اس کے نتائج کو سب نے مسترد کر دیا تھا ۔ اس خانہ شماری میں اربوں روپے خرچ ہوئے ۔ لاکھوں سرکاری ملازمین اور سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں نے فرائض انجام دیئے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی مشق ہوئی اور اس کے نتائج مسترد ہونے پر ہم خاموش ہیں ۔ کوئی اس کی ذمہ داری بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ لوگوں نے اس خانہ شماری کے نتائج کو ماننے سے انکار کردیا اور ریاستی اور حکومتی اداروں کی طرف سے یہ تاثر دیا گیا کہ کوئی بات نہیں لیکن اس وقت جو مردم و خانہ شماری ہو رہی ہے ، اس کے بارے میں یہ رویہ ملک کے لئے انتہائی نقصان دہ ہو گا ۔
گزشتہ خانہ شماری کو ریاستی اور حکومتی اداروں نے خود ہی متنازع تسلیم کرلیا ۔ ماضی میں جتنی بھی مردم و خانہ شماری ہوئی ہیں ، ان پر بھی لوگوں کا اعتماد نہیں ہے کیونکہ 1951،1961 ، 1972 ، 1982 اور 1998 ء کی مردم و خانہ شماری کے نتائج کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ بعض قوتیں اپنی مرضی کے نتائج مرتب کرتی رہی ہیں ۔ ہر مردم شماری میں پاکستان کے لسانی گروہوں کے بارے میں جو اعدادو شمار دیئے گئے ، وہ انتہائی غیر منطقی ہیں ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک لسانی گروہ کا 1951 ء کی مردم شماری میں جو تناسب ہو ، وہ 1961 ء میں بہت زیادہ کم ہو جائے اور 1972 ء میں وہ اچانک بہت زیادہ ہو جائے ۔ اعدادو شمار کے غیر منطقی ہونے پر بہت طویل بحث ہو سکتی ہے ۔ لوگوں کے شکوک و شبہات کا جواز بھی موجود ہے ۔ جس ملک میں یہ فارمولا دیا جائے کہ 54 فیصد اور 46 فیصد کو برابر تسلیم کر لیا جائے اور شہری اور دیہی آبادی کو بغیر کسی وجہ کے یکساں تصور کرلیا جائے کیونکہ یہ ملک کے ’’ عظیم مفاد ‘‘ میں ہے ، وہاں مردم و خانہ شماری کے عمل پر شکوک و شبہات کا پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ہر صوبہ اور آبادی کا ہر گروہ اپنی آبادی بڑھانے کے لئے کوئی نہ کوئی حربہ استعمال کرتا ہے ۔ پاکستان میں بین الصوبائی ، علاقائی ، سیاسی ، لسانی ، نسلی ، قومی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم بہت گہری ہے ۔ اس تقسیم کے باعث مردم و خانہ شماری ایک انتہائی مسئلہ رہا ہے۔ اس حساسیت اور درست اعدادو شمار سے بعض قوتوں کے خوف کے پیش نظر 19 سال تک مردم و خانہ شماری نہیں ہوئی ۔ اب اگر اس کے نتائج متنازع یا بعض حلقوں کے لئے ناقابل قبول ہوئے تو نہ صرف داخلی طور پر پولرائزیشن اور شکوک و شبہات میں اضافہ ہو گا بلکہ پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کی وجہ سے پاکستان کی دنیا میں بڑھتی ہوئی اہمیت متاثر ہو سکتی ہے ۔ پاکستان اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ 19سال بعد ہونے والی مردم و خانہ شماری متنازع ہو جائے ۔



.
تازہ ترین