• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابوبکر صاحب نے ایک ادبی مجلے کے ایک ایڈیٹر کی احمد جاوید صاحب کے حوالے سے رائے کے بارے میں ایک دلچسپ قصہ لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن مجلے کے ایڈیٹر احمد جاوید صاحب سے محض اس بات پر ناراض ہوگئے کہ جب انہوں نے اُن سے اُن کے پسندیدہ معاصرین کے نام پوچھے تو جو تین نام انہوں نے لئے اُن میں ایک نام ڈاکٹر ہود بھائی کابھی تھا۔ ابوبکر کے لئے یہ بات ایک خوشگوارحیرت کی تھی۔ وہ احمد جاوید کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ یہ بات ان کے لئے سمجھنا زیادہ آسان تھا کہ جوشخص اپنے معاصرین میں ڈاکٹر ہودبھائی سے متاثر ہو وہ عملی زندگی میں کس حد تک حقیقت پسند رویئے کا مالک ہوسکتا ہے۔
انہی ہودبھائی نے حال ہی میں ایک مضمون لکھا ہے ’’ردِ تولید‘‘۔ ہم ایسے لوگ جو ایک طبقے کی اس منطق کو نہیں مانتے کہ زیادہ آبادی سے مسلمان دوسری قومیتوں اور مذاہب کے لوگوں سے بڑھ جائیں گے تو اس سے اسلام کی فتح ہوگی، یہ مضمون خاص طور پر توجہ طلب ہے۔ پرویز ہودبھائی اپنے اس مضمون میں دلچسپ لطائف اور ڈیٹا کے ذریعےیہ ثابت کرنےکی کوشش کر رہے ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی ہمیں ہمارے وسائل سے کس طرح محروم کردے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ جس رفتار سے ہماری آبادی بڑھ رہی ہے اس حساب سے پاکستان کی آبادی اگلے 20سے 25سال میں دوگنا ہوجائے گی اور پھر اسے چوگنا اور اس سے بھی ڈبل ہو کردنیا کی اس وقت کی کل آبادی سے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ایسے میں جووسائل ہمیں اس وقت میسر ہیں وہ کہاں جائیں گے؟ اتنی بڑی آبادی کے لئے وسائل کہاں سے آئیں گے؟ اور تو اور ہودبھائی کہتے ہیں کہ یہ سوچنا ان افسروں کابھی کام ہے جنہیں ریٹائرمنٹ کے وقت قریباً 93ایکڑ زمین ملتی ہے اس لئے کہ جب زمین ہی نہیں رہے گی تو انہیں ملے گی کیسے؟
میں جیسے اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھ چکا ہوں کہ اس وقت بھی مسلمانوں کی تعداد دنیا میں عیسائیوں کے بعددوسرے نمبر پر ہے، اس گنتی میں یہودیوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔بدھ مت کے پیروکار اور ہندو بھی خاصی بڑی تعداد میں دنیا میں بس رہے ہیں۔ ان کی تعداد کروڑوں اوراربوں میں ہے۔ یہودی البتہ دنیا میں ڈیڑھ کروڑ سے بھی کم ہیں۔ ڈیڑھ کروڑ لوگ دنیا میں کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نےاپنی قوم اور پھر دنیا بھر میں لوگوں کے لئے کیا کارنامے سرانجام دیئے ہیں؟ کیا آبادی کی اس قلت نے ان کی عسکری قوت میں کسی طرح کی کمی پیدا کی ہے؟ یہ سب سوال اس حوالے سے ہمیں سوچ بچار پر مجبور کرتے ہیں۔ جہاں تک سوال ان کی تعداد اور اس کے مقابلے میں ان کی عسکری قوت کا ہے تو ہم جانتے ہیں کہ صرف ڈیڑھ کروڑ ہونے کے باوجود عرب ملکوں کی اکثریت ہونے والی پچھلی جنگ میں ان کاکچھ نہیں بگاڑ سکی تھی بلکہ ہوا تویہ کہ اس جنگ کے نتیجے میں یہودی عرب ملکوں کے کافی بڑے حصے پر قبضہ کر بیٹھے اور ان کے قبضہ کئے ہوئے علاقوں کو اب تک چھڑایا نہیں جاسکا۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر ان کی سائنس کے میدان میں یا معاشی ترقی کے حوالے سے دیکھا جائے تو انہوں نے ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیئے ہیں کہ ہم مسلمان اپنی اتنی بڑی تعدادکے باوجود شرمسار دکھائی دیتےہیں۔ آبادی کے لحاظ سے کم ہونے کے باوجود سائنس اوردوسرے میدانوں میں نوبیل انعام یافتہ کی ایک بڑی تعداد کا تعلق اسی نسل سے ہے۔ دنیا میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا تناسب بھی اگرتعداد کے حوالے سے کیاجائے تو یہودی ہی سرفہرست نظر آتے ہیں۔ ادب کا میدان ہو، پولیٹکل سائنس کا، جرنلزم کا یا معیشت، اس سب میں یہودی چھائے ہوئے ہیں۔ان کے بڑے بڑے سائنس دانوں نےجہاں اسرائیل کو اور یہودیوں کو مضبوط کیا ہے ۔ وہیں سائنس کے میدان میں ان کی تحقیق نے دنیا میں فہم و فراست کے راستے کھولے ہیں۔ تعداد کی کمی نےتو ان کو عسکری طور پر کمزور کیا ہے اور نہ ہی علمی طور پر۔
اب ذرا اپنے لوگوں کی مثال لے لیں۔ بڑی تعداد کے باوجود دنیا میں تعلیم کے لحاظ سے مسلم دنیا بہت پیچھے نظرآتی ہے۔سائنسی تحقیق، فنون ہوں یاآرٹس سب میدانوں میں اتنی بڑی تعداد بھیڑ بکریوں کی طرح ہی نظر آتی ہے۔ اکثر بڑے بڑے اسلامی ملک اپنے عوام کے لئے نہ تو لوگوں کی فلاح کے کاموں میں دلچسپی لیتے نظر آتےہیںاور نہ ہی ان کے ہاں کوئی قابل کر یونیورسٹیاں، سائنس لیبز، ریسرچ کے ادارے نظر آتے ہیں۔ بڑے بڑے تیل کے ذخائر رکھنے والے ملکوں نےاپنے ہاں بڑی بڑی عمارتیں تو کھڑی کرلیں ،سڑکوں کے جال بچھا دیئے لیکن تعلیم بہتر نہ کرپائے۔
اس حوالے سے ایک کام عمران خان صاحب کے کرنے کا بھی ہے۔ حال ہی میں انہوں نے خیبرپختونخوا میں ایک ارب درخت لگانےکے حوالے سے مختلف وعدے کئے ہیں۔ اگر وہ ایسا کر رہے ہیں تو یقیناً یہ بہت اچھا کام ہے۔ لیکن انہیں اس ’’ردِ تولید‘‘ کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے جس کی بات ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کر رہے ہیں۔ آباد ی میں اضافے کا ایک بڑا باعث ان کے صوبے کے لوگ بھی ہیں۔ وہاں خواتین میں تعلیم کی شرح بھی کم ہے اور مردوں کو بھی اسی حوالے سے تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ اگر اس اضافے میں شدت سے اضافے کو نہ روکا گیا تو یہ درخت کسی کام نہیں آئیں گے۔



.
تازہ ترین