• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکمرانی ابتدا سے ہی ریاستی سطح کا نظام در نظام انتظامی بندوبست ہے، جس کی وسعت اور اہمیت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اگر حکمرانوں کی اپنی سکت محدود یا نیت بری ہو، وہ نظام ہائے ریاست و حکومت کو قائم نہ کر پائیں یا فقط کاغذوں (آئین و قانون) میں تو کرلیں لیکن آئین کو مکمل اختیار کرنے اور قانون کے تمام شہریوں پر یکساں اطلاق سے کھلم کھلا گریزاں ہوں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ مکمل لاپروائی سے ڈیزاسٹر کی طرف چلے جارہے ہیں، خواہ وہ اپنی نالائقی یا بدنیتی کو عوام دوستی اور مخالفین کی تنقید، اختلاف اور احتجاج کو عوام دشمنی سے تعبیر کرتے جائیں بطور حکمراں اپنے ادوار کے آخری تجزیوں اور ریکارڈڈ تاریخ میں ناکام و نامراد ہی مانیں جائیں گے سیاسی حادثات سے حاکم بن جانے والے محدود سکت کے وہ حکمران جو خود شناسی سے بھی محروم ہوتے ہیں اور انہیں اپنے درباریوں اور ٹیم ارکان کی لو کیپسٹی، ان کی لیاقت اور نالائقی کا بھی کوئی اندازہ ہو نہ ہوش، وہ بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔ یہی وہ حکمران ہوتے ہیں جو اپنے سے وفا کو میرٹ پر فوقیت دیتے ہوئے ریاستی اور عوامی خدمات کے اداروں کو بڑی بے رحمی سے من پسند نااہلوں کے حوالے کردیتے ہیں۔ اپنے ذاتی مفاد یا اطمینان کے لئے کہ چار سو اپنے ہی اپنے ہیں، حالانکہ گورننس کی کوالٹی میں کمی بیشی اور حکمرانوں کی اپنی نااہلی، فقط انتظامی ٹیم کے لائق فائق اور مستعد ارکان سے ہی کسی حد تک پوری ہوسکتی ہے، لیکن پاکستان کی تاریخ بحیثیت مجموعی ’’جیسے حاکم ویسے معاون‘‘ کے ریکارڈ کی حامل ہے،، اسی کا شاخسانہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم خصوصاً پرائمری اور سیکنڈری سطح کی تباہی ہوئی۔ جس طرح ہمارے حکمرانوں نے جمہوریت کی نرسری بلدیاتی نظام کو نفاذ آئین (1973) سے دبائے رکھا اور اس کے لئے شرمناک حد تک آئین کے خلاف مزاحمت کی، اس میں فقط عدلیہ ہی ہے جس نے اپنی آئینی حیثیت سے انہیں اس کے نیم دلانہ آغاز پر مجبور کردیا۔
آج جبکہ اسٹیٹس کو کسی دونوں بڑی روایتی سیاسی قوتوں کےاقتدار کی دوسری باری بھی مکمل ہوا چاہتی ہے، حال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان، نیب، ایف آئی اے، فیڈرل بورڈ آف ریونیو، آڈٹ جنرل آف پاکستان اور کتنے ہی ایسے ریاستی ادارے اپنے طے شدہ مقاصد حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ یہ آئین کے مطابق اپنے وجود کے تقاضے پورے کرنے سے کہیں زیادہ حاکمان وقت کے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے وقف ہو چکے ہیں۔ یا پھر اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے فرائض کی ادائیگی کے کچھ علامتی ماڈلز انہوں نے ضرور تیار کئے ہیں۔ جیسے پلی بارگیننگ نے بڑے بڑے وائٹ کالر ڈاکوئوںکو بڑا بڑا ریلیف اتنی ہی چھوٹی ادائیگی پر دیا۔ پاکستان کا نظام ٹیکس پہلے سے ناجائز مراعات یافتہ طبقے کا کھلم کھلا محافظ اور ہر مالی قومی ضرورت پوری کرنے کے لئے فقط غریب طبقے کے در پے ہے، جو ہر حالت میں قومی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہر حالت میں عوام سے ٹیکس وصول کرنے کے لئے دسیوں حربوں کا استعمال کمال مہارت سے کرتا ہے۔ اس طرح ہمارے یہ ریاستی ادارے مکمل برائلر بن چکے ہیں، جبکہ واپڈا، اسٹیل ملز، پی آئی اے، کراچی واٹر بورڈ، کول اتھارٹی اور کراچی کے بے اختیار بلدیہ عظمیٰ جیسے ادارے مافیاز کے ہتھے چڑھ کر تباہ ہو چکے ہیں۔ ان پر جو گزری اور جو گزر رہی ہے، وہ کوئی راز نہیں، حکمرانوں نے دھڑلے سے یہ سب کچھ کیا اور ان اداروں میں بھاری بھر کرپشن سے اس کے خلاف آئین و حلف بینی فشری بنے۔ ہماری یہ داستان بربادی دوبئی سے لے کر سوئٹزرلینڈ اور پاناما تک پھیلی ہوئی ہے۔ میڈیا سے ہونے والی بے نقابی اور اپوزیشن کا واویلا ابھی تک تو بدترین طرز حکمرانی کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ جتنا کچھ میڈیا سے میڈیا کے ایجنڈے کے طور پر آیا اور جو کچھ میڈیا کے ذریعے آیا اور آتا جارہا ہے، اس پر ایک عرصے سے اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کے واضح اشارے، انتباہ اور برہمی مسلسل ہورہی ہے، جیسے بیڈ گورننس پر کوئی بند باندھنا آسان نہیں رہا۔ محال سے بھی آگے ہے۔ تمام تر نشاندہی۔ بے نقابی اور احتجاج کے باوجود اس میں تواتر کا اندازہ فقط چند روز کی خبروں سے لگایا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایف بی آر افسروں کی گریڈ22میں ترقیاں کالعدم قرار دے دیں اور یہ سوال بھی اٹھایا کہ ایف بی آر کے اجلاس میں کس حیثیت سے بیٹھے؟ متعلقہ سماعت میں چیف جسٹس صاحب کے ریمارکس ’’منظور نظر افراد کو ترقیاں دینے کے لئے اہل افسران کو بائی پاس کیا جاتا ہے‘‘، کے بعد بھی بدتر حکمرانی کے جاری و ساری ہونے کا کوئی شبہ رہ جاتا ہے۔ کراچی میں سپریم کورٹ کی رجسٹری میں سندھ کول اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کی غیر قانونی تقرری کے خلاف رٹ پٹیشن کی سماعت میں جناب جسٹس عیسیٰ کے یہ ریمارکس کیا نشاندہی کررہے ہیں کہ ’’قانون کوبالائے طاق رکھ کر صوبے کو تباہ کیا جارہا ہے۔ تعلیم یافتہ لوگوں کے حقوق تباہ کئے جارہے ہیں، حکومت کو عوام پر ڈاکا ڈالنے کا اختیار نہیں، یہ معاملات دیکھ کر ہمیں تکلیف ہورہی ہے‘‘۔ منچھر جھیل آلودگی کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ یہاں تک کہنے پر مجبور کردی گئی کوئی کام کرنے کو تیار نہیں، وفاقی و صوبائی حکومتیں بھی ٹھیکے پر دے دیں۔ کچرا اٹھانے کے لئے بھی چینیوں سے ٹھیکہ طے پایا ہے، فنڈز کے معاملات طے کئے جائیں بصورت دیگر وزیراعظم، وزیراعلیٰ سندھ عدالت میں پیش ہوں گے۔ اگر کوئی اینکر پرسن وفاقی یا سندھ حکومت کے کسی وفا کے پیکر کو عدلیہ کے ان ریمارکس کی طرف متوجہ کر کے بیڈگورننس کا سوال اٹھا دے تو روایتی جواب اس کا جواب اس کے سوا کچھ نہیں ہوگا کہ جج صاحبان ایسے ریمارکس دیتے ہی رہتے ہیں۔ تاہم ہم عدالتوں کی مکمل عزت کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ بھی درست نہیں توہین عدالت میں ایک وزیراعظم اپنے منصب سے محروم ہو چکا ہے حالت یہ ہے کہ مردم شماری کے لئے فارم چھپنے کے بعد نشاندہی ہوئی ہے کہ اس میں تو معذوروں اور خواجہ سرائوں کے اندراج کا کوئی کالم ہی نہیں، جبکہ میڈیا ان کے حقوق کو معاشرے سے تسلیم کرا چکا ہے دوبارہ فارم چھپنے کا خرچہ کس پر پڑنا چاہئے؟ گویا عدلیہ کی طاقت تو بہت ہے تو پھر جیوڈیشل ایکٹو ازم میں کمی بھی تشویشناک نہیں؟ ریٹائرڈ ہونے والے چیف جسٹس صاحب بھی سال بھر اداروں کی تباہی کا نوحہ پڑھتے ریٹائرڈ ہوگئے۔ اب پاکستان کے پاس میڈیا، عدلیہ اور مجبوراً فوج سے سول مسائل نمٹانے کے علاوہ گورننس کو سنبھالنے کے لئے کچھ اور رہ گیا ہے؟ پارلیمنٹ بھی برائلر کی برائلر ثابت ہوئی۔ آخری ریمارکس جناب شہباز شریف کے جو انہوں نے طالبات کو وظائف کی ایک تقریب میں دیئے، ظلم و زیادتی کا نظام زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ بالکل درست لیکن پھر بھی پنجاب کا تھانہ کچہری کلچر اور دیہات اور چھوٹے شہروں کیا بڑوں میں بھی سوشل سیکٹر کی حالت زاویے بگڑی ہوئی ہے۔



.
تازہ ترین