• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی آبادی 20کروڑ سے بھی بڑھ چکی ہے ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے عوام سے صرف ٹیکس وصول کرنے کا طریقہ ڈھونڈ رکھا ہے ۔یعنی طرح طرح کے ٹیکس جو دنیا میں کہیں نہیں پائے جاتے۔ ہمارے بیوروکریٹس حضرات نے جبراً مسلط کررکھے ہیں ان حکمرانوںاور بیوروکریٹس نے اُن سے بچنے کے طریقے بھی وضع کررکھے ہیں جبکہ ہمارے مظلوم عوام خاموشی سے اُن کو ادا کرکرکے ہلکان ہوچکے ہیں ۔گزشتہ ایک چوتھائی صدی میں ایک درجن سے زائد نئے ٹیکس ایجاد ہوئے ۔حتیٰ کہ شیرخوار بچے کی غذا سے لے کر بوڑھے افراد کو بھی نہیں بخشا گیا ۔اس کے برعکس 25سال میں ایک نیا اسپتال ،کالج،یونیورسٹی یا کوئی فلاحی ادارہ حکومت نے تشکیل نہیں دیا ،جو ترقی ہوئی وہ خود عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت کی ۔اگر پرائیویٹ اسکول نہ ہوتے تو ہم ترقی پذیر ممالک کی طرح اچھی تعلیم سے بھی محروم ہوتے ۔ سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیز کا معیارسب کے سامنے ہے۔ اسپتالوں کی حالت سے بھی سب واقف ہیں ۔صرف غریب غربا اُن کا رُخ کرتے ہیں ۔اور اُن کو بھی خود ادویات لانے کی ہدایت ملتی ہیں ،گندے بستر اُن کا مقدر ہیں ۔گزشتہ تین ہفتوں سے راقم کینیڈا میں مقیم ہے اتفاقاً ایک عزیز کے صاحبزادے جو ٹورنٹو شہر کے اسپتال میں داخل تھے اُن کی تیمارداری کے لئے جانا پڑا تو بہت حیرت ہوئی کہ یہاں مریضوں کا کیسے خیال رکھا جاتا ہے۔خصوصاً بچوں کے لئے ایک خصوصی اسپتال جس کا نام (Sick kids)یعنی بیمار بچوں کے لئے، جو پیدائش سے 18سال تک کے بچوں کے لئے مخصوص تھا ،دیکھ کر دل عش عش کر اُٹھا کہیں سے اسپتال نہیں لگ رہا تھا ۔ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آپ کسی عالی شان فائیو اسٹار ہوٹل میں آگئے ہوں۔ ایسا اسپتال جس کو اسپتال نہیں کہا جاسکتا تھا ۔داخل ہوتے ہی ہوٹل استقبالیہ کا عملہ رہنمائی کے لئے تندہی سے اپنے فرائض انجام دینے میں مصروف تھا۔آگے بڑھے تو کسی مال (Mall)کا نقشہ تھا۔10بارہ ریسٹورنٹس ،کافی شاپ ،بیٹھنے اور گپ شپ کیلئے بہت خوبصورت علاقہ مخصوص تھا۔مریضوں کے اہلخانہ اور ملنے والوں کے لئے آسائش سے بھر پور کائونٹر تھے ۔ ساتھ گروسری کی دکان بھی تھی۔مریض بچوں کی رہائش بھی قابل دید تھی ۔ خوبصورت بستر ے رنگ برنگے پھولوں کی ٹوکریاں، بچوں کے کھیلنے کے لئے چھوٹے بڑے کھلونے ایسا لگ رہا تھا جیسے بچے پکنک منانے آئے ہوں۔ہر فلور پر مریضوں کے بیٹھنے کے لئے باقاعدہ خوبصورت سیٹیں بنی ہوئی تھیں۔ مریض بچوں کے والدین کو فون پر آنے کا وقت اور کہاں کس ڈاکٹر سے ملنا ہے ایڈوانس مطلع کردیا جاتا ہے تاکہ کسی کو انتظار کی زحمت نہ ہو اور نہ ہی غیرضروری بھیڑ بھاڑ لگے ۔ہم بتائے ہوئے کمرے میں گئے تو کوئی دقت نہیں ہوئی ۔اتقاق سے اُسی وقت مطلوبہ ڈاکٹر بھی کمرے میں آیا ۔مریض کے کوائف تیار کرکے نرس نے پہلے ہی بستر پر رکھ دیئے تھے ۔ڈاکٹر کے ساتھ 2جونیئر ڈاکٹرز بھی تھے جن کو وہ مرض اور مریض کی کیفیت بتا کر علاج و ادویات کی تفصیل بتارہا تھا ۔ہم بھی اُن کی باتوں سے متاثر ہوئے ۔ایسا لگتا تھا کہ مریض اُن ڈاکٹروں کا رشتہ دار یا خصوصی شخصیت کا حامل ہے۔ حالانکہ وہ گورے اور ہم پاکستانی ،خود ہمارے ملک میں مہنگے ترین اسپتالوں میں نرسوں اور ڈاکٹروں کے نخرے ہم دیکھتے رہتے تھے ۔کہیں سے محسوس نہیں ہوا کہ ہم کینیڈا میں ہیں وہ بھی دیارغیر میں، جان کتنی قیمتی ہے ایک مریض کی ڈاکٹروں و نرسوں کو معلوم ہے ۔قارئین کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ کینیڈا میں ہر کینیڈین شہری یا رہائشی کے لئے تعلیم اور علاج معالجہ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔وہ بھی صوبائی حکومت کی کیونکہ صوبائی ٹیکس جو صوبوں سے وصول ہوتا ہے وہ اور اُس میں کمی بیشی مرکزی حکومت پورا کرتی ہے ۔ کینیڈا کی آبادی تقریباً 36ملین یعنی ساڑھے 3کروڑ سے کچھ زیادہ ہے ، اس کے 10صوبے ہیں اور 3اضافی صوبے جن کو Territories کہتے ہیں، ملا کر 13صوبے بنتے ہیں۔ ہر صوبے کا اپنا اپنا بجٹ ہوتا ہے ، اس میں بھی کئی شہر ہوتے ہیں۔ ان کے مئیر اور صوبائی چیف منسٹر ، وزرا ہوتے ہیں۔ یہ سب عوام کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ ہم جس شہر میں مقیم تھے اس شہر مارکھم کے مئیر سے ملنے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا کہ اربوں روپے کا بجٹ ہونے کے باوجود اس مئیر کو ڈرائیور نہیں ملتا اور بہت سے چھوٹے چھوٹے شہروں کے مئیروں کو تو گاڑی بھی نہیں ملتی۔ یہی حال ان کے وزرا کا بھی ہے ، وہ ذاتی کام کے لئے سرکاری گاڑیاں استعمال نہیں کر سکتے ۔ خود وزیر اعظم کے لئے صرف ایک رہائش گاہ مخصوص ہے ۔ اگر وہ کسی دوسرے شہر میں سرکاری دورے پر جائے گا تو مقامی ہوٹل میں ہی ٹھہرے گا۔ کسی دوست کے ہاں بھی نہیں ٹھہرے گا کہ کہیں وہ دوست اس سے سرکاری کام نہ کرائے یا کوئی اضافی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے ۔ وہاں ہر شخص عوام کو جوابدہ ہے ۔ کسی قسم کی رشوت یا رشوت نما فائدہ قابل جرم ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ٹیکس دینے والوں کا حق ہے کہ ان کا پیسہ غیر ضروری خرچ نہیں ہونا چاہئے۔ ان جمہوریت پرست ممالک میں ترقیوں کی وجہ صرف یہ ہے کہ کرپشن سے پاک سیاستدان ہی حکمراں بن سکتے ہیں۔ اس میں کینیڈا کا نمبر 1ہے ، جہاں عوام سے مذہب، زبان ، تہذیب و تمدن کے بجائے صرف اور صرف کینیڈین سمجھا جاتا ہے ۔ یہاں کسی کے ساتھ کوئی خصوصی یا کمی کا برتاؤ قانونی جرم ہے ۔ تعصب کا دور دور تک واسطہ نہیں ہے ۔ ہر قوم یہاں آکر آباد ہے ، خواہ وہ مسلمان ، یہودی ، عیسائی ، لامذہب ہوں اس سے سرکار کا کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ آپ کسی سے اقربا پروری نہیں کر سکتے ، قانون کی سختی سے حفاظت کی جاتی ہے ۔ حتیٰ کہ آپ اپنے بنگلے کے سامنے رات 2بجے کے بعد گاڑی سڑک پر نہیں کھڑی کر سکتے تاکہ سڑک سے گزرنے والی گاڑیوں کے لئے رکاوٹ نہ ہو اور آڑی ترچھی گاڑی کھڑی کرنے سے آپ کا چالان ہو سکتا ہے ۔ انسان ہی نہیں یہاں جانوروں ، درختوں کی بھی حفاظت اسی طرح کی جاتی ہے ، جیسے انسانوں کی کی جاتی ہے۔ اسلام میں عوام سے جن ہمدردیوں اور ضروریات کی اہمیت بتائی گئی ہے وہ سب کینیڈا میں آپ کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں ۔ اگر کسی کا روزگار ختم ہے ، اس کی دیکھ بھال حتیٰ کہ رہائش بھی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ اس میں نقد امداد بھی شامل ہے ، جیسے خلفائے راشدین کے زمانے میں بیت المال کا کردار ، آپ کو موجودہ دور میں کینیڈا میں نظر آئے گا۔ کاش ہمارے مسلمان ممالک اس سے سبق سیکھیں جہاں 1درجن سے بھی زیادہ قومیں آزادی کے ساتھ رہتی ہیں ۔ ان کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو مقامی کینیڈین کو حاصل ہیں۔



.
تازہ ترین