• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتہ کے روز ایک بڑے انگریزی اخبار کے صفحہ اول پر خیبر پختون خوا حکومت کی طرف سے دیا گیا اشتہار پڑھا جس کا پیغام ’’Our Children Must Understand to Practice‘‘ (ترجمہ: ہمارے بچوں کو عمل کے لیے (قرآن) کو ہر حال میں سمجھ کر پڑھنا ہے) تھا۔ اشتہار کا پیغام بہت پرکشش تھا۔ اشتہار میں اس بات کی تشہیر کی گئی کہ خیبر پختون خوا حکومت نے صوبہ کے تمام تعلیمی اداروں میں پہلی سے بارویں جماعت تک کے طلبہ کے لیے قرآن پاک کو ترجمہ کے ساتھ پڑھانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ خیبر پختون خوا واحد صوبہ ہے جس نے یہ initiative لیا ہے۔ اشتہار پڑھ کر بہت خوشی ہوئی، دل سے دعائیں نکلی اور امید پیدا ہوئی کہ ان شاء اللہ دوسرے صوبے بھی قرآن پاک کو ترجمہ کے ساتھ سمجھ کر پڑھنے کے لیے جلد از جلد ضروری اقدامات اٹھائیں گے۔ اشتہار کے پانچ الفاظOur Children Must Understand to Practice نے سب کچھ کہہ دیا اور اُس کمی کو پورا کرنے کے لیے تدبیر بتا دی جو ہمیں ایک اچھا انسان اور اچھا مسلمان بنانے کے لیے لازم ہے اور جس سے ہم نے آج تک پہلو تہی کی حالانکہ آئین پاکستان قرآن پاک کو لازم پڑھانے اور قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کا وعدہ کرتا ہے۔ وفاقی حکومت اور پنجاب بھی اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں جبکہ اسی ماہ میری ملاقات سندھ حکومت کے مشیر برائے مذہبی امور اور آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ڈاکٹر قیوم سومرو نے بتایا کہ سندھ حکومت بھی قرآن پاک کو ترجمہ کے ساتھ پڑھانے کی اسکیم کے نفاذ کے معاملہ پر غور کر رہی ہے۔ بلوچستان سے اس بارے میں ابھی تک کوئی خبر نہیں ملی۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور کور کمانڈر سے درخواست ہے کہ خیبر پختون خوا کی طرح بلوچستان بھر کے مسلمان طلبہ کے لیے قرآن پاک کو ترجمہ کے ساتھ پڑھانا لازم قرار دیا جائے۔ ذرائع کے مطابق آزاد کشمیر حکومت بھی اس بہترین کام میں دلچسپی لے رہی ہے۔ قرآنی تعلیم کی اس اسکیم کے فوری نفاذ کے لیے بلوچستان، سندھ اور آزاد کشمیر حکومت کے ذمہ دار وفاقی وزیر مملکت برائے تعلیم جناب بلیغ الرحمن سے رابطہ کر سکتے ہیں جنہوں نے دراصل اس اسکیم پر بڑی لگن سے کام کیا، اس کے لیے مختلف مکاتب فکر کے علماء سمیت اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت مکمل کی بلکہ قرآن حکیم کو ترجمہ کے ساتھ پڑھانے کے لیے پورا میکنزم بھی تیار کر لیا گیا ہے۔
اب ذرا حجاب کے موضوع پر بھی بات ہو جائے۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران میڈیا کے نام نہاد سیانوں کو پنجاب کے تعلیمی اداروں میں طالبات کے لیے پردہ یا حجاب کی مخالفت میں سر گرم دیکھاگیا ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ابھی تک جھوٹ کی بنیاد پر کچھ ٹی وی شو چل رہے ہیں جس کا مقصد حجاب کی مخالفت ہے۔ پہلے دن سے جھوٹ یہ بولا جارہا ہے کہ حجاب کرنے والی طالبات کو پانچ اضافی نمبر دیئے جائیں گے جبکہ ایسی کوئی تجویز کبھی زیر غور تھی ہی نہیں۔ اصل میں تجویز یہ تھی کہ حجاب کرنے پر بچیوں کو کم از کم 65% حاضری نہ ہونے پر پانچ فیصد رعایت ملے گی۔ لیکن میڈیا کو دیکھیں کہ ایک دو دن قبل بھی ایک چینل پر پروگرام کیا گیا جس میں بحث کا نکتہ پانچ اضافی نمبر اور اس سے میرٹ کی پالیسی کو نقصان تھا۔ کوئی چینل یہ بات کیوںنہیں کرتا کہ پردہ تو اللہ کے احکامات میں شامل ہے جس سے انکار ممکن نہیں؟؟ کوئی یہ کیوں نہیں بتاتا کہ امریکی پیو سروے (PEW survey) کے مطابق 98% پاکستانی برقعہ ، حجاب، چادر، اسکارف یا کم از کم سر پر دوپٹہ کے حق میں ہیں۔ صرف دو فیصد سر کو ڈھاپنے کے حق میں نہیں۔ میڈیا جو دکھاتا ہے وہ بالکل اس کے برعکس ہے جو ہمارا ماحول ہے یا جسے ہمارے لوگوں کی بہت بڑی اکثریت اپنے لیے پسند کرتی ہے۔ حال ہی میں مجھے ایک خاتون ٹی وی اینکرز نے بتایا کہ وہ حجاب لینا چاہتی ہیں لیکن ان کی مینجمنٹ انہیں ایسا کرنے نہیں دیتی۔ ویسے بھی حجاب لینے والی خواتین کو ٹی وی چینلز میں کم مواقع کیوں دیئے جاتے ہیں؟؟ اسلامی ملک میں اسلامی لباس اور اسلامی شعار کو فروغ دینے کے لیے میڈیا کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔

.
تازہ ترین