• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے سامنے محمود غزنوی اور محمد غوری کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے افغان صحافیوں کا ایک وفد اپنے شکوے شکایتیں سنا رہا تھا۔ میں جوابی شکووں کی بجائے اُن کی دلجوئی کر رہا تھا کیونکہ وہ مہمان تھے۔ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے افغان صحافیوں کے وفد سے ملاقات میں ایک دوسرے سے ہاتھ بھی ملائے گئے اور معانقے بھی ہوئے لیکن دل نہیں ملے۔ دوسری ملاقات میں دل بھی مل چکے تھے۔ میں نے شریف حسن یار سے گزارش کی کہ ایک زمانے میں افغانوں نے پورے ہندوستان پر حکومت کی لیکن اب ہمیں ماضی سے نکلنا ہو گا آج پاکستان ایک حقیقت ہے اسے تسلیم کرنا ہو گا اور پاکستانیوں کو افغانستان کی خودمختار حیثیت کا احترام کرنا ہو گا۔ میری تجویز تھی کہ ہم صرف غزنوی اور غوری پر کیوں فخر کرتے ہیں حضرت علی ہجویریؒ اور لعل شہباز قلندرؒ کو اپنا مشترکہ اثاثہ کیوں نہیں سمجھتے جو افغانستان سے آئے تھے؟ شریف حسن یار نے مجھ سے اتفاق کیا اور کہا کہ یہ درست ہے کہ افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی تھی لیکن 1965ءاور 1971ءکی جنگوں میں ہم نے ہندوستان کا ساتھ نہیں دیا کیونکہ افغان عوام کی اکثریت پاکستان کے ساتھ دشمنی نہیں چاہتی۔ میں نے افغان دوستوں کو بتایا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی اصل تاریخ ایک دوسرے سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے چھپا رکھی ہے، ہم کچھ تاریخوں کو تو جانتے ہیں اور تاریخی دن منا بھی لیتے ہیں لیکن اس دن سے جڑی اصل تاریخ کو جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ میں نے اپنے افغان دوستوں سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ 1947ء میں کشمیری مسلمانوں کی مدد کے لئے قبائلی لشکر تیار کرنے کا فیصلہ پشاور یا راولپنڈی میں نہیں بلکہ کابل میں حضرت صاحب شوربازار نے کیا تھا؟ یہ سُن کر افغان دوست حیران رہ گئے تو میں نے اُنہیں بتایا کہ برٹش لائبریری لندن میں آج بھی وہ ریکارڈ موجود ہے جس کے مطابق کابل میں برطانوی سفارتخانے نے 27ستمبر 1947ءکو لندن پیغام بھجوایا کہ قلعہ جواز میں مہمند، خیبر اور وزیرستان کے قبائلیوں کا وفد حضرت صاحب شوربازار سے ملا ہے اور ہندوستانی فوج پر حملے کی اجازت مانگی ہے۔ پھر جب لشکر کشمیر کی طرف روانہ ہوئے تو ان میں ایک نوجوان نور محمد ترکئی بھی شامل تھا جو بعد میں افغانستان کا صدر بنا۔ ترکئی نے میرپور آزاد کرانے والے لشکر کے ہمراہ ہندوستانی فوج کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا اور سماہنی کے علاقے میں کافی دن گزارے۔ حضرت صاحب شور بازار نے افغان حکومت کی مخالفت کے باوجود ہزاروں قبائلیوں کو کشمیر بھیج دیا۔ یہی قبائلی پاک افغان بارڈر کو خاطر میں لائے بغیر افغانستان میں غیر ملکی افواج پر حملے کرتے ہیں اور غیرملکی ہمیں ایک دوسرے سے لڑانے کے لئے ایک دوسرے کو استعمال کرتے رہتے ہیں۔ افغان دوست خاموش ہو چکے تھے۔ چائے کے دوران ایک افغان دوست نے بتایا کہ ہندوستان جا کر پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کیوں بنا تھا۔ اُس نے اپنے آئی فون میں موجود ایک ویڈیو فلم مجھے دکھائی جس میں کچھ ہندو نوجوان مسلمانوں کے ساتھ مارپیٹ کر رہے ہیں اور اُن کے سر مونڈ رہے ہیں پس منظر میں یہ بھجن گایا جا رہا تھا
ہندوستان میں رہنا ہو گا
بندے ماترم کہنا ہو گا
یہ ویڈ یو اسے ایک مسلمان بھارتی صحافی نے بھجوائی تھی جسے میں بھی جانتا تھا۔ پاکستان اور افغانستان کے صحافیوں نے اتفاق کیا کہ ہمیں اپنی نامکمل تاریخ کی بنیاد پر ایک دوسرے سے لڑنے کی بجائے اپنی اصل تاریخ کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بہتر مستقبل تلاش کرنا چاہئے۔ جو بات افغانستان کے صحافیوں کو سمجھ آگئی وہی بات اگر پاکستان کے صاحبانِ اختیار اور اہل فکر و نظر بھی سمجھ جائیں تو پاکستان امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ ہمیں تاریخی دن منانے کے ساتھ ساتھ ہر دن سے جڑی اصل تاریخ کا علم بھی حاصل کرنا چاہئے۔
23مارچ کو لے لیجئے۔ 23مارچ کو ہم یوم پاکستان مناتے ہیں۔ 1940ءمیں اس دن منٹو پارک لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں ایسی آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کا مطالبہ کیا گیا جو ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقوں میں ایک دوسرے سے متصل ہوں اور جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو۔ اس موقع پر ایک قرارداد منظور ہوئی جس میں پاکستان کا لفظ شامل نہیں تھا لیکن یہاں پر بیگم مولانا محمد علی جوہر نے اپنی تقریر میں پاکستان کا لفظ استعمال کیا۔ اُن کا اصل نام امجدی بانو تھا اور اُنہوں نے اپنی ساس بی امّاں کے ساتھ مل کر تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لیا۔ 1931ءمیں اپنے شوہر کی وفات کے بعد بھی وہ مسلم لیگ میں سرگرم رہیں۔ 23مارچ 1940ء کے دن اُنہوں نے حبیبیہ ہال اسلامیہ کالج میں خواتین کا اجتماع منعقد کیا پھر منٹو پارک تشریف لائیں اور یہ اعزاز اس عظیم خاتون کو حاصل ہوا جس نے قرارداد لاہور کو قرارداد پاکستان قرار دیا۔ 23مارچ کے دن قائد اعظمؒ کی تقریر بہت اہم تھی جس میں قائد اعظمؒ نے کہا کہ ہم پر فرض عائد ہوتا ہے کہ خواتین کو بھی اپنی جدوجہد میں شامل کریں۔ قائد اعظمؒ کے الفاظ تھے ’’ہماری خواتین میں سیاسی شعور بیدار ہو جائے تو پھر یاد رکھئے کہ آپ بچوں کو زیادہ پریشانی نہیں اٹھانی پڑے گی۔ ‘‘
اسی تقریر میں قائد اعظمؒ نے کانگریسی لیڈر لالہ لاجپت رائے کی طرف سے سی آر داس کے نام لکھے گئے خط کا ذکر کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ہندو مسلم اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرآن و حدیث ہے۔ اس خط میں لالہ جی نے یہ بھی کہا کہ میں ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں سے نہیں ڈرتا لیکن یہ سات کروڑ مسلمان افغانستان، وسط ایشیا، عراق، عرب ممالک اور ترکی کے مسلمانوں سے مل گئے تو ان کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ اس خط کا ذکر کرنے کے بعد قائد اعظمؒ نے کہا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کا تصورِ حیات اور طرزِ حیات الگ الگ ہے۔ ان کا ادب اور مشاہیر الگ الگ اور تاریخی سرمایہ جدا جدا ہے۔ یہ باتیں ایک ایسے لیڈر نے کیں جو کسی زمانے میں خود ہندو مسلم اتحاد کا علمبردار تھا لیکن سیکولر ازم کے پردے میں چھپے ہوئے کانگریس کے اصل چہرے کو دیکھنے کے بعد قائد اعظمؒ نے علیحدہ وطن کا راستہ اختیار کیا۔ آج ہم 23مارچ تو مناتے ہیں لیکن اس دن قائد اعظمؒ کی تقریر پر توجہ نہیں دیتے۔ نئی نسل کو یہ نہیں بتاتے کہ 23مارچ کو صرف قرارداد پاکستان نہیں بلکہ قرارداد فلسطین بھی منظور ہوئی تھی۔ قائد اعظمؒ کی تقاریر میں بہت کچھ ہے۔ اسلام بھی ہے، راواداری بھی ہے، برداشت کا سبق بھی ہے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی بھی ہے، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ بھی ہے، عدل و مساوات بھی ہے اور جمہوریت پسندی بھی ہے لیکن ہم اصلی قائد اعظمؒ کو سامنے نہیں لاتے۔ اسی لئے وہ پاکستان بنا نہیں پائے جس کے لئے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دیں۔ ہم سب کا پاکستان وہی ہے جو قائد اعظمؒ کی تقاریر اور علامہ اقبالؒ کی شاعری میں ہمیں اپنی طرف بلاتا ہے۔

.
تازہ ترین