• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج شام چار بجے برادرم کیپٹن عطا محمد خان اور عزیز خرم شاہ نے مجھے ملنے میرے دفتر میں آنا تھا اس وقت چار بجکر پچیس منٹ ہو گئے ہیں مگر وہ ابھی تک نہیں آئے میں نے سوچا کہ ان کے آنے تک کالم کیوں نہ لکھ لوں چنانچہ میں کاغذ قلم لیکر بیٹھ گیا ہوں اور ان لمحوں میں پچاس ساٹھ سال پیچھے چلا گیا اور مجھے بہت کچھ یاد آ رہا ہے ایک تو یہ وزیر آباد میرا پیچھا نہیں چھوڑتا اور بارہ کمروں پر مشتمل وہ مکان بھی امرتسر سے ہجرت کرکے ہم جس میں آباد ہوئے تھے یہ اس کا سب سے بڑا کمرہ کثیر الاستعمال تھا۔ گرمیوں میں ہمارا سارا خاندان دوپہر کو اسی کمرے میںقیلولہ کرتا تھا رات کو ہم اپنے مکان کی چھت پر ہوتے تھے ۔اس زمانے میں بجلی نہیں تھی چنانچہ کمرے کی چھت کے درمیان میں کپڑے کا ایک بہت بڑا پنکھا لٹکایا ہواتھا جس کی رسی مسلسل چلائی جاتی تھی اور وہ ہوا دیتا تھا ۔کمرے میں ایک بڑے سائز کی کھڑکی تھی جس کے ساتھ بیٹھنے کیلئے ماربل کی ایک چوکی تھی میں اس پر بیٹھ کر اسکول کا کام کیا کرتا تھا اور گلی میں سے گزرنے والے لوگوں کو بھی دیکھتا رہتا تھا۔بجلی تو ہوتی نہیں تھی چنانچہ رات کو لالٹین جلانا پڑتی۔ گرائونڈ فلور پر جو ایک آخری کمرہ تھا اس میں کھڑکی نہ ہونے کی وجہ سے مستقل اندھیرا رہتا تھا چنانچہ ہم بچے اس کمرے کا رخ کم کم ہی کرتے تھے اگر رات کو ادھر جانا پڑتا تو ہم میں سے ایک لالٹین لیکر آگے آگے چلتا جس سے ہمارے سائے بہت لمبے ہو جاتے اورہمیں بہت ڈرلگتا۔ اس زمانے میں ہر کسی کے گھر میں کوئی نہ کوئی ایسا ’’بزرگ‘‘ ضرور رہتا تھا جو کسی کو دکھائی نہیں دیتا تھا۔ہمارے گھر کی ڈیوڑھی میں بھی اس ’’بزرگ‘‘ کے آثار پائے جاتے تھے اور ایک دوسرے کو اس کی موجودگی کا یقین دلانے کیلئے ہم من گھڑت واقعات بھی بیان کیا کرتے تھے ۔کچھ گھروں میں ’’شیاطین‘‘ کا ڈیرہ بھی ہوتا تھا میری بڑی بہن ماجدہ آپی لوہاری گیٹ لاہور کے مستی چوک میں رہتی تھی وہ بتاتی تھیں کہ ان کے شوہر (امین بھائی جان) دفتر سے کافی لیٹ گھر آتے تھے ایک روز دروازے پر دستک ہوئی تو وہ نیچے دروازہ کھولنے آئیں مگر باہر کوئی نہ تھا واپس اوپر جانے کیلئے انہوں نے اپنے پائوں سیڑھیوں پر رکھے تو انہوں نے دیکھا کہ کسی جانور کے پنجےجو آگ کے شعلوں کی صورت میں تھے ،سیڑھیاں چڑھ رہے تھے آپی چیخ مار کر بیہوش ہو گئیں ان کی چیخ سن کر اہلخانہ آئے اور انہیں اوپر لے گئے !
اس زمانے میں’’لوڈشیڈنگ ‘‘ کا کوئی تصور نہیں تھا کیونکہ میونسپل کمیٹی کا عملہ دن کے وقت گلیوں اور سڑکوں میں نصب لالٹینوں کا ’’تیل پانی ‘‘ چیک کرتا اور پھر شام ہوتے ہی انہیں روشن کرنے آ جاتا اور یوں پورا شہر جگمگ جگمگ کرتا تھا ۔ سڑکوں کی صفائی کا بہترین انتظام تھا اور دن طلوع ہونے سے پہلے خاکروب سارے شہر کی سڑکوں کو شیشے کی طرح چمکا دیتے تھے ہمارے گھر کے گرائونڈ فلور پر باتھ روم تھا جس میں ہینڈپمپ لگا ہوا تھا ہم اس کے نیچے بالٹی رکھتے تھے اور اس کی ’’ہتھی ‘‘ کو ہاتھ سے ’’گیڑتے‘‘ تھے ۔بہت عجیب بات یہ تھی کہ گرمیوں میں پانی ٹھنڈا یخ اور سردیوں میں نیم گرم ہوتا تھا ۔ اوپر کے فلور پر ہینڈپمپ صحن میں نصب تھا اور دو ٹائلٹ گھر کی چھت پر تھے۔جس میں کموڈ نام کی کوئی چیز نہیں تھی اور یہی انتظام باقی گھروں میں بھی ہوتا تھا چنانچہ صبح کے وقت چھت پر جاتے تو ہر چھت پر لوگ لوٹا ہاتھ میں پکڑے نظر آتے ایک بات جس کی مجھے سمجھ نہیں آئی اور وہ یہ کہ صبح کے وقت گھروں میں ماشکی آتے جنہوں نے چمڑے کے پانی بھرے تھیلے اپنے کاندھوں پر لٹکائے ہوتے اور وہ بڑے برتنوں میں پانی بھر کر چلے جاتے ۔یہ پانی پینے کیلئے ہوتا تھا ہینڈ پمپ کا پانی پینے کیلئے نہیں تھا ۔شام کو ’’گرم روٹی ‘‘ کی صدا لگاتے سیلزمین گلی گلی پھرتے اور جن گھروں میں رات کو روٹی پکانے کا رواج نہیں تھا وہ ان سے روٹیاں خریدتے۔ دن کے وقت لوگ گوندھا ہوا آٹا ایک ٹرے میں لیکر تندور پر جاتے جہاں ’’مائی چہوری‘‘ اس میں سے دو پیڑے اجرت کے طور پر خود رکھ لیتی اور باقی آٹے کی روٹیاں پکا کر گاہک کے سپرد کر دیتی ۔گلی میں سے گزرتے ہوئے فقیر صدا لگاتے تو انہیںپیسوں کی بجائے ایک مٹھی آٹا دیا جاتا۔ گھروں میں بچی ہوئی روٹیوں جنہیں ’’چھان بورا‘‘ کہا جاتا تھا اس کے طلب گار بھی گلی میں صدا لگاتے تھے!
ہم بچوں کے کھیل کود بھی آج سے مختلف تھے پٹھو گرم کھیلتے تھے، اس کے علاوہ بنٹے ،ایک گیند اور تختی کے ساتھ ’’کرکٹ‘‘ کھیلتے ،گلی ڈنڈا بہت فیورٹ گیم تھی اس کے علاوہ لوہے کے ایک چکر کو ایک راڈ کے ساتھ سڑکوں پر دوڑاتے ہوتے تھے۔ وزیر آباد سے دوتین کلو میٹر کے فاصلے پر کرم آباد میں مولانا ظفر علی خاں کی رہائش تھی ان کی کوٹھی میں بیریوں کے بہت سے درخت تھے ہم بچے اپنے اپنے ’’ریڑھے‘‘ دوڑاتے مولانا کی کوٹھی پہنچتے اور بیر کھا کر واپس آ جاتے ۔ایک دفعہ بیر کے علاوہ ماربھی بہت کھائی تھی جب ہم نے ایک چلتی بس پر پتھر مارے تھے ۔
غالباً 57ء میں ہمارا خاندان وزیر آباد سے ماڈل ٹائون لاہور منتقل ہو گیا یہاں کی دنیا ہی کچھ اورتھی اس کا احوال پھر کبھی سہی، یہاں کی زندگی میں بہت آسائشیں تھیں اور کھیلیں بھی ماڈرن تھیں سوائے لڈو کے اور لڈو ہم اپنے ایک دوست کی پریشانی کامزہ لینے کیلئے کھیلتے تھے اسے پریشان کرنے کیلئے ہم نے ہارنے والے پر ایک روپیہ جرمانہ فکس کیا ہوتا تھا۔
اسے جوں جوں محسوس ہوتا کہ وہ ہارنے والا ہے اس کی درد بھری سسکیاں سنائی دینے لگتیں ہم اس کی ’’آتش غم ‘‘ کو تیز کرنے کیلئے کہتے لائو ایک روپیہ !ہم اس کی بوتل پئیں گے ،پیسٹری کھائیں گے، وغیرہ وغیرہ اور اس کے نتیجے میں اس کا سانس پھول جاتا کس نے روپیہ لینا ہوتا تھا اور کس نے دینا ہوتا تھا یہ ڈھونگ تو محض ایک تھرل یا چھیڑ چھاڑ کیلئے ہم نے رچایا ہوتا تھا چنانچہ ہم میں سے جب کوئی ہار جاتا ہر دفعہ وہ کنجوس دوست ہی تو نہیں ہارتا تھا ہم میں سے بھی کسی نہ کسی نے تو ہارنا ہی ہوتا تھا چنانچہ جو ہمارے ایک روپے کا مقروض ہو جاتا ہم اس کا جینا دوبھر کر دیتے تھے، وہ کسی مسئلے پر اپنی رائے پیش کرتا تو ہم کہتے تم ہمارے مقروض ہوتمہیں جرات کیسے ہوئی کہ ہماری بات میں بولو، یا کبھی کبھی چلتے چلتے وہ ہم سے دو قدم آگے نکل جاتا تو ہم اسے کندھے سے پکڑ کر پیچھے کرتے اور کہتے ’’ہمارے پیچھے پیچھے چلو، تم ہمارے مقروض ہو‘‘ اور ظاہر ہے کوئی اس کا برا نہیں مانتا تھا کہ سب جانتے تھے یہ دل لگی ہے !اور پھر یوں ہوا کہ میں 1970ء میں امریکہ چلا گیا وہاں میں نے اپنے روم میٹ پال سے اپنی یہ ساری یادیں شیئر کیں جن سے وہ بہت محظوظ ہوا میں اس وقت کام کی وہ بات بھول گیا تھا جو ہمارے ایک شاعر نے کہی تھی ؎
بشر راز دل کہہ کر ذلیل وخوار ہوتا ہے
نکل جاتی ہے جب خوشبو تو گل بیکار ہوتا ہے
چنانچہ ایک دن میں اور پال ایک شاپنگ سینٹر میں مختلف شاپس پر چھچھلتی نظر ڈالتے جا رہے تھے کہ اچانک پال نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور مجھے پیچھے کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا ’’میرے پیچھے پیچھے چلو، تم ہم امریکیوں کے مقروض ہو اپنی اوقات میں رہو ‘‘ اور اس کے ساتھ ہی اس نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا جو خنجر کی طرح میرے سینے میں پیوست ہو گیا!

.
تازہ ترین