• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہندو فسطائی مفکر، وینایک دامو دار سیوارکر جسے اسکے عقیدت مند،جن پر بھارت کی نصف آبادی مشتمل ہے، عقیدت سے ویر سیوارکرکہتے ہیں، کو جہنم میں آخری جشن منانے کی اجازت ملنی چاہئے۔ ویر سیوارکر، جو ہندوتوانامی اصطلاح کا موجد تھا، نے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز زہریلے بیانیے کی ترویج کرتے ہوئے اُنہیں ہر ممکن طریقے سے انڈیا، جو اُس کے نزدیک خالص ہندووں کا دیس ہے، سے ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اتر پردیش (یوپی)، جو دوسوملین آبادی رکھنے والا سب سے بڑا بھارتی صوبہ ہے (گویا یہ صوبہ پاکستان سے بھی زیادہ آبادی رکھتا ہے)کے صوبائی انتخابات کے نتائج نے انڈیا پر ہندوفسطائیت کا تسلط مضبوط کردیا ہے۔ یو پی پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے حکمراں جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)اور اس کا انتہا پسند ہندو نظریہ بھارت پر اپنا قبضہ مکمل کرنے اور اسے خالص ہندودیس میں تبدیل کرنے کا دعویٰ کرسکتا ہے۔
یہ مقصدحاصل کرنے کیلئے ویر سیوارکر، جو ہندو انتہا پسندی کا سرچشمہ ہے، نے قتل اور آبروریز ی کو اہم اور درست اقدامات کے طور پر تجویز کیا ہے۔ چنانچہ یہ کوئی اچنبے کی بات نہیں کہ 1990ء کی دہائی کے وسط میں بی جے پی اور اس سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند گروہوں کی طرف سے مسلمان خواتین کی بے عزتی کے واقعات ایک تسلسل کیساتھ پیش آئے ہیں۔ یوپی میں فتح بی جے پی کیلئے صرف اسلئے ہی اہم نہیں تھی کہ یہ سب سے بڑا صوبہ ہے، بلکہ اسلئے بھی کہ اسکی علامتی اہمیت بھی ہے۔ یہ وہ صوبہ ہے جہاں ہندوانتہا پسندی نے کامیابی سے مسلمانوں کیخلاف زہریلا بیانیہ پھیلایا۔ 1992ء میں ایودھیا میںبابری مسجد کا انہدام اور اسکے بعد مسلم مخالف منظم فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کی ہلاکت نے پورے بھارت کی رگوں میں مسلم عصبیت کا زہر بھر دیا۔ Yale Universityکے 2014ء میں لئے گئے ایک جائزے میں اس بات کا پتہ چلا کہ ہر مسلم مخالف فسادات نے سیکولرازم کو نقصان پہنچاتے ہوئے بی جے پی کے ووٹ بینک میں اضافہ کیا۔
موجودہ بھارتی وزیر ِاعظم، نریندر مودی مسلمانوں کے خلاف پروان چڑھائے گئے بیانیے اور چلائی گئی پر تشدد تحریک سے براہ ِراست فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہیں۔ وہ گجرات میں ہونیوالے فسادات، جن میں دوہزار سے زائد مسلمانوں کو ہلاک اور نصف ملین کے قریب کو بے گھر ہونے پر مجبور کردیا گیا،کے بعد قومی افق پر نمودار ہوئے۔ ان فسادات نے اُنہیں ’گجرات کے قصاب ‘ کا لقب دیا۔ حالیہ انتخابات کے دوران مودی نے مسلمانوں کیخلاف نفرت کا پرچار کرنے اور پاکستان مخالف بیانیے کا رنگ دینے کی مہم جاری رکھی۔ گزشتہ فروری میں، انتخابات سے پہلے، اُنہوں نے ایک ٹرین حادثے، جس میں ایک سوپچاس مسافر ہلاک ہوگئے تھے، کا الزام بھی پاکستان پر لگا دیا۔ اُنھوںنے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انڈیا میں مسلمانوںکیساتھ ترجیحی بنیادوں پر بہتر سلوک کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ ایک سفید جھوٹ ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کیخلاف روارکھے جانیوالے منظم تشدد اور زہریلے امتیازی سلوک نے ان کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ بی جے پی کے صدر، امیت شاہ نے گزشتہ سال مظفر نگر میں فسادات کے دوران مسلمانوں کے قتل کو کھلے عام’’ہندو ہلاکتوں کا بدلہ ‘‘ قرار دیاتھا۔ اُنھوںنے گائے ذبح کرنے کے ایشو کوبھی ہوا دی اور تمام مذبح خانے بند کرنے کا عزم کیا۔ مودی اور امیت شاہ، دونوں بے جے پی سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد گروہ، راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ(آرایس ایس) کے سابق ممبران ہیں۔ یہ دہشت گرد گروہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے قتل ِعام میں ملوث رہا ہے۔ امیت شاہ توبذات ِخود بھی ایک مسلمان خاندان، سہراب الدین شیخ اور ان کی بیوی، کوثر بائی کے قتل، اور عشرت جہاں قتل کیس میں ملوث رہا ہے۔ عشرت جہاں قتل کیس میں انیس سالہ عشرت جہاں سمیت چار مسلمانوں کو مبینہ طور پر لشکر ِ طیبہ کے کارکن قرار دیکر پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا گیا تھا۔
یوپی کے انتخابی نتائج کے بعد مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم میں ایک بار پھر شدت آگئی ہے۔ ہندوتہوار، ہولی کے موقع پر یوپی کے ایک گائوں، جیناگلا (Jianagla)میں اشتہارت لگائے گئے جن میں مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی تھی کہ یا تو فوری طور پر بھارت چھوڑ دو، یا خطرناک نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہوجائو۔ ایک اور نفرت انگیزقدم اٹھاتے ہوئے گجرات، جو بی جے پی کا مضبوط گڑھ ہے، کے وزیر ِاعلیٰ، وجے روپانی نے اعلان کیا کہ اُن کی حکومت گائے ذبح کرنے یا اسکے گوشت کی نقل وحمل کیخلاف قانون سازی کرتے ہوئے اس پر سزائے موت تجویز کرے گی۔ ایسی مہم کے نتیجے میں مسلمانوں کیخلاف بننے والی خوف و دہشت کی فضا مزید گہری ہوجائے گی اور قانون اور وحشی ہجوم، دونوں ان کا تعاقب کرینگے۔ انتخابی کامیابی کے بعد ہندو فسطائیت کی طرف سے جنونی جذبات کے اظہارنے انڈیا کے دوسوملین مسلمانوں کے مستقبل کو تاریک کردیا ہے۔
پس ِ نوشت:
یوپی کے انتخابات کی پاکستانی میڈیا میں موثر کوریج دیکھنے میں نہیں آئی۔ ایک نجی چینل کے نمائندے نے ’’مبینہ طور پر‘‘انڈیا سے رپورٹنگ کرتے ہوئے جو تجزیہ کیا اُسے ابہام کا شاہکار قرار دیا جاسکتاہے۔ ایک اور ٹی وی شو میں ایک صاحب نے انتخابات کے دوران پاکستان مخالف بیانیے کو پروان چڑھتے د یکھا، لیکن اُن کی باتوں سے ایسا تاثر ملا جیسے بھارت میں پائے جانے والے عدم اعتمادکی ذمہ داری پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر عائد ہوتی ہے۔ ایک سابق سفارت کار، ظفر ہلالی البتہ واضح سوچ اور بامعانی وضاحت کرنیوالے واحد تجزیہ کار دکھائی دئیے۔ خودساختہ جلاوطنی لینے والے صحافی نے ماہر تجزیہ کار کے طور پر انتخابی نتائج کو ’’منطقی چوائس ‘‘ قرار دیا، جبکہ اُن کی ٹویٹ نہایت بے کیف تھی۔ ناول نگار، محمد حنیف میری مدد کو پہنچے اور آخرکار اس بیمار تجزیے کی وجہ بیان کی۔ اُنھوں نے حالیہ دنوں الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا (انٹرویو یوپی کے انتخابات کے موضوع پر نہیں تھا)’’کم وبیش تمام پاکستان مصنف انڈیا میں شائع ہوتے ہیں،اوراُن کا انڈین زبانوں میں ترجمہ ہوتا ہے، اور ان کے قارئین کا حلقہ موجود ہے۔ چنانچہ اپنا نفع نقصان بھی دیکھنا ہوتا ہے۔‘‘
ضمیمہ:
ایک انگریزی روزنامہ نے یوپی انتخابات پر اپنے اداریے،میں رجائیت کا کچھ شائبہ تلاش کر لیا۔ اپنے دلائل میں جہاں اس نے بھارت میں سیاست دانوں کے پروان چڑھائے گئے نفرت انگیزبیانیے کا ذکر کیا،وہاں اس نے حتمی الزام پاکستان پر ہی عائد کیا کہ اس نے ممبئی حملے یا پٹھان کوٹ حملے کے ذمہ داروں کیخلاف تحقیقات کو آگے نہیں بڑھایا۔مذکورہ اداریے میں ہندو دہشت گردی، پاکستانیوں کے قتل میں ملوث ہندودہشت گردوں کی رہائی یا پاکستان اور مسلمانوں کیخلاف عوامی جذبات کو برانگیختہ کرنے کی مہم کا کوئی ذکر نہ تھا۔

.
تازہ ترین