• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بریگزٹ ، سکاٹ لینڈ اور یورپ رابطہ … مریم فیصل

ملکہ برطانیہ کے دستخط کے بعد بریگزٹ ہونا پتھر پر لکیر ہوگیا ہے جو کھنچی تو جاسکتی ہے لیکن مٹانا ممکن نہیں رہا ۔ خیر یہ ہونا ہی تھا وہ تو بس کبھی کہیں سے ایک آدھ آواز اٹھ جاتی تھی کہ ہوسکتا ہے برطانوی عوام اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر کے یونین سے باہر نہ نکلیں۔ اب سارے شکوک و شہبات کے بادل چھٹ گئے ہیں اور علیحدگی کا موسم نظروں کے سامنے ہے۔اب تو بس برسلز کو آگاہ کرنا باقی ہے کہ مقرر کردہ قت پر برطانیہ یونین سے باہر ہوجائے گا ۔میں نے برطانیہ کی یونین سے علیحدگی کے بارے میں اکثر لوگوںکو دیکھا سناہے کہ وہ اس علیحد گی کو یورپ سے علیحدگی سے مشروط کر رہے ہیں اس لئے اپنے اس کالم میں یہ واضح کرنا چاہوں گی کہ برطانیہ یونین سے علیحدہ ہورہا ہے یورپ سے نہیں ۔ یورپی یونین کے بارے میں زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اب گوگل کی مہربانی سے ہر کسی کو پتا ہے کہ یورپی یونین جو پہلے یورپی اکنامک کمیونٹی کہلاتی تھی جس کا مقصد یورپ اور اردگرد کے علاقے میں مزید عالمی جنگوںسے بچنا اور یورپی ممالک کے عوام اور اشیاء و خدمات کی یہاں وہاں آزادانہ نقل و حرکت تھا ۔ اس میں یورپ کے ممالک شامل ہوتے گئے اور یونین مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی ۔ تو واضح کرنے کی بات یہاں یہ ہے کہ اسی یورپی یونین سے نکلنے کا مطلب صرف یونین سے ہی نکلنا ہے براعظم یورپ سے نہیں کیونکہ بہرحال برطانیہ اس کا جغرافیہ اور تاریخی حصہ ہے ۔ ایسا نہیں ہونے جارہا کہ بریگزٹ کے بعددنیا کے نقشے میں برطانیہ یورپ میں نہیں ہوگابلکہ کسی اور کونے میںنظر آنے لگے گا ۔ بریگزٹ کے بعد بھی برطانیہ یورپ کا ہی ملک کہلائے گا ۔برطانیہ اپنے پونڈز اور لندن کی عظمت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے اور پھر ٹریٹی رائیٹس کا جس طرح استعمال کیا گیا جس سے برطانوی عوام کو یہ کھلنے لگاکہ ٹیکس ہم دے رہے ہیں اور فائدہ یونین کے ممالک کو ہورہا ہے۔ بس پھر ہوگیا بریگزٹ ۔اب تو بس مذاکرات ہوں گے اور دو سال مکمل ہوتے ہی یونین کے ممبر ممالک کی فہرست سے برطانیہ کا نام خارج ہوجائے گا ۔ یہ تو برطانیہ کے بریگزٹ کے با ت تھی لیکن اس بریگزٹ کے بعد پھر اسکاٹ لینڈ میں بھی برطانیہ سے الگ ہونے کے لئے ریفرنڈم کا شور سر اٹھا رہا ہے ۔اسکاٹ لینڈ کی وزیر اول نکولا اسٹرجین نے ایک بار پھر اسکاٹ لینڈ کی آزادی کے لئے وزیر اعظم تھریسامے کو پیغام بھی دیا ہے لیکن مسز مے فی الحال اس وقت کو کسی نئے ریفرنڈم کے لئے مناسب نہیں سمجھتی۔یاد رہے کہ پہلے ہی اسکاٹ لینڈ میںایک ریفرنڈم دوسال قبل ہوچکا ہے جس میں عوام نے ساتھ رہنے کے حق میں ہی ووٹ دے کر علیحد گی کے عمل کو روک د یا تھا لیکن بریگزٹ کے بعد اسکاٹ لینڈ کی حکومت اور عوام کو بھی شاید یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ہماری خودمختاری بھی ضروری ہے ۔کیونکہ جمہویت کا سب سے بڑا فائدہ ہی یہ ہے کہ جب بھی بات خودمختاری کو نقصان پہنچنے کی ہوتی ہے تو پھر اس کے حق میں اٹھتی آوازیں آسانی سے دبتی نہیں ہیں ۔ یہ دنیامیں کیا ہوہا ہے برطانیہ کا بریگزٹ اور اسکاٹ لینڈ کاد وسرا ریفرنڈم اور فرانس میں امیگرینٹس کے خلاف لیپن پارٹی کا اعلان کہ جیت کی صورت میں فرانس میں بھی ریفرنڈم کر وائے گی۔یہ قومیت پسندی کا ایک نیا غبار سا اٹھ رہا ہے کیونکہ کہاں یہ تما م ممالک یکجا ہوکر طاقت ور معیشتیں بنی تھیں اور اب یہی ریاستیں آپس کے اتحاد کو اپنی خودمختاری اور مستقبل کے لئے کیا خطرہ محسوس کر رہی ہیں؟؟ اصل میں یہ مسئلہ شروع ہوا ہے امیگرینٹس سے ۔ کیونکہ باہمی اتحاد و تعاون نے تارکین کی نقل و حرکت کو آسان کر کے یورپ کے خوش حال ممالک کی زمین کو پس ماندہ ریاستوں کے عوام کے لئے شاندار مستقبل کی ضمانت بنا دیا تھا اور پھر تارکین نے بھی مال مفت دل بے حم کی طرح اس سے فوائد اٹھائے جن میں کچھ اگر قانونی طور پر جائز بھی تھے تو وہ اخلاقی طور پر بالکل غلط ۔ یہی چیز نقصان اٹھانے والے ملکوں کے عوام کو بہت ناگوار گزری جو اب ایک تحریک کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ ادھر دہشت گردی اور انتہا پسندی بھی اس میں شامل ہوگئی اور بہت سی وارداتوں میں مسلم ممالک سے آنے والے تارکین اس کے الزام تلے آئے ۔ اس سب کا ملا جلا رد عمل یہ ہوا کہ یورپی یونین شاید بکھرنے کی طرف جارہی ہے ۔آئندہ ہر ملک کا الیکشن اس یونین کے اتحاد کے لئے اہم ہوگا ۔
تازہ ترین