• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ڈائری، یو پی میں یوگی کی کامیابی،ہندوتوا کے فلسفے پر مہر تصدیق ثبت

اسلام آباد( محمد صالح ظافر+ خصوصی تجزیہ نگار ستر سال قبل جب جنوبی ایشیا میں متحدہ ہندوستان کی ریاست کوانگریز سامراج آزادی دینے پر مجبور ہوا تو اسے چیر کر مسلمانوں کو الگ مملکت معرض و جود میں آئی جس کا تقاضا خطے کے مسلمانوں نے پیہم مطالبات کے ذریعے کیا تھا۔ پاکستان اسلامی نظریئے کی بنیاد پر قائم ہونے والی صفحہ ہستی کی ایک ہزار چار صد سالہ تاریخ کی اولین مملکت تھی جس کی تشکیل کے مرحلے میں ان گنت معصوم مسلمانوں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتاراگیا لاتعداد عورتوں کی عصمت دری ہوئی اورہزاروں بچوں کو ان کے ماں باپ سے جدا کردیاگیا ۔ اس کے مقابل ہندو آبادی کا نقصان حد درجہ معمولی تھا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بے شمار قربانیوں سے جنم لینے والی مملکت اپنے نظریئے پر پختگی کے ساتھ کاربند رہتی اور اس اساس کو اپنے لئے حرز جاں بنائے رکھتی جو اس کے قیام کی باعث تھی انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ اس مملکت اسلامیہ کے خلاف سازشوں کا سلسلہ روز اوّل سے شروع ہو گیا جن کے لئے کبھی لسانی، کبھی نسلی، پھر علاقائی اورحتیٰ کہ مذہبی منافرت کو آلہٰ کار بنایا گیا یہ ریشہ دوانیاں یوں کامیاب ہوئیں کہ آزادی کے محض ربع صدی کے بعد ہی پاکستان کے بڑے حصے کو بزور طاقت اس سے الگ کردیاگیا یہاں زبان اور علاقے کی عصبیت کے ذریع فضا ہموار کی گئی۔ اس دور کی آمریت اور غیر جمہوری حکمرانی نے اس وار کو کارگر بنانے کیلئے معاونت فراہم کی یہی وجہ ہے کہ سیکولر ازم کے لبادھے اوڑھے بھارتی حکمرانوں کی سرخیل یوپی سے تعلق رکھنے والی کٹر ہندو وزیراعظم اندراگاندھی نے پاکستانی افواج کے ہتھیار ڈالتے ہی اعلان کیا کہ آج ہم نے دو قومی نظریئے کو خلیج بنگال کے پانیوں میں غرق کردیا ہے توقع تھی کہ باقی بچ  رہے پاکستان میں اس کاری زخم سے عبرت حاصل کی جائے گی وہ لوگ جو پہلے ادھر ہم اور اُدھر تم کا نعرہ لگا کر پاکستان کے سنگھ امن اقتدار پر قابض ہوگئے تھے درا صل پاکستان کے دشمنوں کے مقاصد کی ہی آبیاری کرر ہے تھے اس اثنا میں پاکستان کے خلاف ختم نہ ہونے والی سازشیں جاری رہیں پاکستان میں ایسے عناصر کو اقتدار میں لانے کی حوصلہ افزائی جاری رہی جو جان بوجھ کر قیام پاکستان کے مقاصد سے مملکت کو دور لے جا رہے تھے وہ کبھی روشن خیالی کی بات کرتے اور کبھی بھارت کو ایسے معاہدوں کی پیش کش کرتے رہے جن سے پاکستان کا دفاع قابل تسخیر بن کررہ جاتا۔ پاکستان میں کھلے بندوں یہ سبق دیئے جانے لگا کہ اس کا معرض وجود میں آنا کسی مذہبی تصادم کا شاخسانہ نہیں بلکہ ایسی مملکت کا قیام کا تصور تھا جس میں سیکولرازم کی کارفرمائی ہو گی یہ سلسلہ دراز ہوتا چلاگیا دوسری جانب بھارت میں جو پاکستان کو دو لخت کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا اور وہاں کانگریس کی کارفرمائی تھی جو پاکستان کا بن جانا اپنی تاریخی شکست تصور کرتی تھی اس کا دوش  صرف یہ تھا کہ وہ سیکولرازم کا نمائشی جھنڈااٹھائے پھرتی تھی پاکستان میں جس رفتار سے نظریاتی پسپائی ہورہی تھی بھارت میں اسی زیادہ تیز رفتاری سے خالص ہندو راج  کی حامی قوتوں کو پذیرائی مل رہی تھی آخر کار تین سال قبل 2014 میں بھارت کے اقتدار پر وہ لوگ قابض ہوگئے جو ہندوتوا کے پرچارک تھے دو تہائی اکثریت حاصل کرنے والے ان عناصر کی نمائندہ بھاجپا کا نظریہ پاکستان کے الگ وجود کو ختم کرکے پورے جنوبی ایشیا میں ھندو ریاست بنانا ہے اس سب پر متزادیہ کہ انکی سوچ میں اس پورے خطے کو مسلمانوں سے پاک کردینا ہی اس کا حقیقی مطمع نظر ہے بھارت کے سب سے بڑے صوبے یوپی میں جہاںمسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے اور جن کے ووٹ کو کبھی ترپ کے پتے کا درجہ حاصل تھا ایک انتہا پسند ھندو جوگی کو وزیر اعلیٰ بنادیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ حال ہی میں منعقدہ عام انتخابات میں اس صوبے سے بھاجپا کو دو تہائی سے زیادہ اکثریت مل گئی ہے اور پورے صوبے میں اس نے کسی ایک نشست کے لئے بھی مسلمان امیدوار نامزد نہیں کیا۔ ان انتخابات نے بھارتی عوام کےھندوتوا کے فلسفے پر مہر تصدیق حتمی طور پر ثبت کردی ہے اور دو قومی نظریہ جس کا علم اٹھاکرپاکستان بنایا گیا تھا اس کی توثیق ہوگئی ہے یہ الگ بات ہے کہ پاکستان جس کی ولادت اسے نظریئے کے بطن سے ہوئی تھی اب یہ نظریہ مملکت کی جانب   عدم توجہی کے باعث بڑھ رہا ہے۔ اس منظر کے پیش نظر ہماری آنکھیںکھل جانا چاہئے تھیں ایسا نہیں ہورہا۔ ملک جونکوں کی طرح چمٹے بعض سیاسی عناصر اس کا خون پینے میں ہم تن مصروف ہیں جنہوں نے اس ملک کی معیشت کو چاٹ لیا ہے اور وہ بدستور ملک کے سب سے بڑے شہر اور اس کے صوبے کو لوٹنے باٹنے میں مصروف ہیں۔ ان سے باز پرس کرنے کی کوشش ہوتی ہے تو وہ فوراً ایسی عصبیت کا جھنڈا اٹھالیتے ہیں جس نے اس ملک کو پہلے ہی بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اس مملکت خداداد کو ایسے سیاسی مسخروں نے گھیررکھا ہے جن کا ذاتی کردار انتہائی مکروہ ہے ان کے اس کردار کی داستانیں کیلی فورنیا،شکاگو سے لیکر یورپ اور برطانیہ کی عشرت گاہوں تک بکھری پڑی ہیں جنہیں پاکستان کی تاریخ اور جغرافیے سے واجبی آگاہی حاصل نہیں وہ گلا پھاڑ کر اپنے مخالفین کو گالیاں دے سکتے ہیں ان پر الزامات عائد کرسکتے ہیں ایسے میں اگر قوم نے تاریخی شعور سے بے پردہ ہونے کا ثبوت دیا تو وہ یاد رکھے کہ خود فراموشی اذیت ناک انجام کا سرنامہ بن سکتی ہے۔ قدرتی سرحدوں سے محروم مملکتیں اگر نظریئے پر معرض تشکیل پائیں تو نظریے کی مضبوطی سے ہی وہ مضبوط رہ سکتی ہیں۔ نظریئے کے سوا ان کا کوئی محافظ نہیں ہوتا۔اس پورے منظر کا ایک ہی جواب ہوسکتا ہے کہ بھارت میں جوگی کی حکومت کے مقابل پاکستان میں حافظ سعید کو مسند اقتدار پر فائز کردیا جائے تاکہ نظریاتی توازن برقرار رہے۔ عالمی رائے عامہ حافظ سعید سے جس قدربدکتی  ہے اس سے کہیں زیادہ اسے یو پی کے جوگی ، بھارت کے مودی سے خطرہ محسوس کرنا چاہیے۔
تازہ ترین