• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سزائوں پر عمل درآمد ... خصوصی تحریر…نثار احمدنثار

قیام پاکستان کے بعدبہت سی اعلیٰ اور ادنیٰ طرز کی سزائیں مجرموں کو دی گئیں کچھ پر عمل ہوا اور کچھ خلا میں کھو گئیں، مگر کاغذوں پر ان کا وجود برقرار رہا ان کے ریفرینس مختلف عدالتوں میں موجود رہے بطور مثال دیئے جاتے رہے۔ ملزموں کی ان سزائوں پر عمل بھی کیا گیا۔ اصل بات یہ ہے کہ سزائیں دینے والوں کو خود بھی یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ کون سا الزام کس مجرم پر فٹ آتا ہے البتہ اخبارات پر چیختی چنگاڑتی سرخیاں لگتی رہیں اب صورت حال کچھ کچھ واضح ہوتی نظر آرہی ہیں مگر پتا نہیں ان الزامات کی حیثیت کیا ہے۔ بعض باتیں حقائق کے برعکس بھی ہوتی ہیں اور ان پر عمل بھی ہو جاتا ہے جن لوگوں کو سزائیں دی جاتی ہیں وہ بے چین ہی نظر آتے ہیں، کچھ مجرموں اور ان کے لواحقین کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ایک بورڈ ہونا چاہئے جو یہ تعین کرے کہ یہ سزا انصاف پر مبنی ہے تاکہ جنہیں سزائیں دی گئی ہیں انہیں بھی یہ یقین ہو کہ واقعی ہم نے جو جرم کئے ہیں ان کی سزائوں پر دیانت داری سے عمل ہوا ہے اور ان کی مثال آئندہ بھی دی جائے گی۔ ایک دلچسپ صورت حال یہ بھی ہے کہ کچھ مجرم اس عمل کو ناانصافی گردانتے ہیں اور ان کا حوالہ دینے والے خود بھی بے چینی محسوس کرتے ہیں کہ یہ کیا لکھ دیا ہم نے۔ بہر حال بدلتی ہوئی صورت حال میں مجرم اور منصف دونوں ہی غیر مطمئن نظر آتے ہیں مگر ریفرینس دونوں کے حق میں آتے ہیں اب یہ تعین ہونا چاہئے کہ آئندہ اصل حقیقت کیا ہے کیونکہ آئندہ بھی بہت سے لوگ اور منصب اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے جس کا نقصان یا نفع دونوں ہی کو ہو گا، ہم ایک انقلابی دور سے گزررہے ہیں اب یہ فیصلہ ہو جانا چاہئے کہ کیا عمل ٹھیک تھا اور کیا غلط تاکہ آئندہ کے لئے سیدھا راستہ متعین کیا جا سکے اور صحیح انصاف کی روایت قائم ہو سکے بعض معاملات میں دوران سماعت انگلش انداز فکر کی مثالیں دی جاتی ہیں جو موجودہ حقائق کے برعکس بھی ہوتی ہیں اور بعض سزائیں انصاف پر مبنی بھی ہوتی ہیں اب ایک ایسا بینچ بننا چاہئے جو غیر ضروری طرز کو قانون بننے سے روک دے کیونکہ یہ تمام چیزیں سینکڑوں سال تک کے لئے کافی ہونگی اور بطور مثال انہیں پیش بھی کیا جائے گااور ان پر عمل بھی ہوتا رہے گا۔ہمارا موجودہ عدالتی نظام پاکستان سے قبل کا ہے، جسے انگریزوں نے بنایا تھا جب ملک تقسیم ہوا تو ایک ہی قانون کی کتاب تھی جو ہندوستان میں تعزیرات ہند اور پاکستان میں تعزیرات پاکستان کہلائی۔ اس کے بہت سے ضابطے ایک ہی ہیں پاکستان میں بار بار مارشل لا لگتا رہا اس سے ہمارا عدالتی نظام بھی دبائو کا شکار ہوا کبھی نظریہ ضرورت آیا، کبھی آئین معطل ہوا کبھی ایل ایف او آیا، مارشل لا کے ضابطے قانونی تحفظات میں بدل دیئے گئے مگر ان تمام اقدامات کے باوجود پچھلے ساٹھ سال میں ہماری عدلیہ نے شاندار فیصلے کئے اور ان کی دھوم مچ گئی۔ بین الاقوامی طور پر قانون دانوں نے ان کا بھرپور اعتراف کیا اور ہماری عدلیہ کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کا ذکر بار بار ہوا۔یورپی ملکوں میں انصاف کا حصول دیانتدارانہ اور بہت شفاف ہے انصاف کے عمل میں ہرشہری کو برابر کے حقوق حاصل ہیں، وہاں اکثر و بیشتر وزرا پر بہت سے الزامات لگے اور وہ اپنے عہدوں سے مستعفی بھی ہوئے تاکہ انصاف کرنے والے جج صاحبان کے سامنے اپنی حکمرانی کا رعب و دبدبہ نہ جما سکیں بلکہ عام آدمی کی حیثیت سے اپنے خلاف لگے الزامات کا سامنا کریں۔قیام پاکستان سے قبل انگریزوں نے قانون کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا کیونکہ ہم محکوم تھے اور وہ حاکم، ہم سے بہت سی ناانصافیاں کی گئیں اور ہمارے بہت سے جنگ آزادی کے رہنمائوں پر زبردستی مقدمے چلا کر انہیں سخت ترین سزائیں دی گئیں جن میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خان، مولانا ابوالاکلام آزاد، مولانا حسین احمد مدنی، اشفاق اللہ خان اور دیگر بہت سے اکابرین شامل تھے۔ ضروری ہے کہ عدلیہ کو وہ مقام اور سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ وہ زیادہ آزادی اور وقار سے اعلیٰ فیصلے کر سکے۔

.
تازہ ترین