• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
22/23مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کا لاہور میں اجلاس ہماری تاریخ کا روشن مینار اور اہم ترین سنگ میل اس لئے ہے کہ اس اجلاس میں مسلمان اکثریتی علاقوں پر مشتمل آزاد مملکت کا مطالبہ کیا گیا تھا جو ہندوستان کے مسلمانوں کے دل کی آواز تھا لیکن اس قرارداد کی منظوری کے بعد ان کا متفقہ اور اعلانیہ مطالبہ بن گیا۔ قرارداد لاہور یا قرارداد پاکستان کی منظوری سے قبل اس اجلاس میں قائد اعظم نے دو گھنٹوں پر محیط جامع خطاب کیا جو اُن کے سیاسی تجربے اور تاریخی مطالعے کا نچوڑ تھا۔ اپنی تقریر میں جہاں قائد اعظم نے یہ انکشاف کیا کہ انہوں نے گزشتہ چھ ماہ مسلمانوں کی تاریخ اور قانون کے مطالعے میں صرف کئے ہیں وہاں یہ بھی کہا کہ انہوں نے اپنے طور پر قرآن مجید کو بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ مطلب یہ تھا کہ اُن کا مطالبہ پاکستان قرآن مجید، مسلمانوں کی تاریخ اور قانون کے مطالعے کا نچوڑ ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کی الگ شناخت، ہندو مذہب اور کلچر سے تضادات اور مسلم قومیت پر زور دیا۔ قائد اعظم کی تقریر پڑھتے ہوئے ان کا ایک فقرہ میرے دل کو چھو گیا اور مجھے یوں لگا جیسے ان کے باطن سے نکلا ہوا یہ فقرہ ان کے تصور پاکستان کا بنیادی ستون تھا۔ فقرہ کچھ یوں تھا ’’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے عوام اپنی روحانی، ثقافتی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کو اپنے آئیڈیلز کے مطابق بہترین انداز میں ترقی دیں اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر زندگی گزاریں۔ ظاہر ہے کہ ایک ہندو اکثریتی ریاست اور ہندو غلبے میں اس مقصد کا حصول ممکن نہیں تھا۔ اپنے آئیڈیلز کے مطابق کا مطلب اسلامی اصول حیات ہیں جن پر قائد اعظم ہمیشہ زور دیتے رہے اور انسانی برابری، معاشی و معاشرتی عدل، مساوات اور قانون کی حکمرانی کا سبق قوم کے ذہن نشین کراتے رہے۔ اسی پس منظر میں قائد اعظم نے بار بار ایمان، نظم اور اتحاد پر زور دیا اور قوم میں یہ احساس بیدار کرنے کی کوشش کی کہ اتحاد اور نظم و ضبط (ڈسپلن) کے بغیر وہ اپنی منزل حاصل نہیں کر سکتے لیکن ڈسپلن اور اتحاد سے پہلے ایمان (Faith)کا مقام یا درجہ ہے کیونکہ ایمان ہی سے نظم و ضبط اور اتحاد کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ مختصر یہ کہ قائد اعظم کے نزدیک حصول پاکستان کا مقصد محض ایک ریاست کا قیام نہیں تھا بلکہ وہ ایسی ریاست کا خواب دیکھ رہے تھے جس میں مسلمان اپنی روحانی، ثقافتی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کو بلا روک ٹوک ترقی دے سکیں۔ گویا ریاست ایسا ماحول، حالات اور مواقع پیدا کرنے کی پابند تھی جس میں زندگی کے ان شعبوں کو خوب سے خوب تر ترقی دی جا سکے۔ ذرا غور کیجئے تو احساس ہو گا کہ قائد اعظم کا زور صرف مادی زندگی کی ترقی پر نہیں تھا انہوں نے سب سے پہلے لفظ روحانی استعمال کیا۔ ظاہر ہے کہ روحانی ترقی کا براہ راست تعلق انسانی باطن اور انسانی مذہب سے ہے اور روحانی بالیدگی اللہ سبحانہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے رستے پر ہی چلنے سے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس راستے کے موٹے موٹے اصول رزق حلال، احترام انسانیت، حسن اخلاق، خدمت، ایمانداری، عدل و انصاف اور خوف الٰہی ہیں۔ گویا قائد اعظم کے بیان کردہ اصولوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پاکستان میں اسلامی معاشرے کا قیام ناگزیر تھا اور ناگزیر ہے۔
قیام پاکستان کے وقت ہندوستان اور پاکستان فرقہ وارانہ فسادات کی لپٹ میں آ چکے تھے اور ہر طرف آگ اور خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں۔ مذہبی منافرت کے اس عروج کے نتیجے کے طور پر اقلیتوں کو اپنے وجود کے لالے پڑے ہوئے تھے اور اُن کا ہر لمحہ خوف کا اسیر تھا۔ اس لئے قائد اعظم نے گیارہ اگست 1947ءکو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب ہونے کے بعد اپنی تقریر میں اقلیتوں کو تحفظ کے ساتھ ساتھ شہری مساوات اور برابری کا یقین دلایا اور یہ واضح کیا کہ پاکستان کے شہری ہونے کے ناطے مذہب اُن کی راہ میں حائل نہیں ہو گا اور نہ ہی مذہبی بنیادوں پر اُن سے کسی قسم کا امتیاز برتا جائے گا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اتحاد پر زور دیا کیونکہ قومی اتحاد کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا اور اس حوالے سے مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کا پاکستانی قوم ہونے کی حیثیت سے اتحاد ملکی استحکام کا پہلا تقاضا ہے۔ قائد اعظم کا یہ کہنا کہ مذہب ہمارا ذاتی معاملہ ہے اور یہ کاروبار ریاست پر اثر انداز نہیں ہو گا کا مطلب فقط اقلیتوں کو یہ یقین دلانا تھا کہ اُن سے قومی زندگی میں مذہبی امتیاز نہیں برتا جائے گا اور اُن کے لئے ملک میں برابر کے مواقع موجود ہوں گے۔
اس تقریر میں قائد اعظم نے رشوت ستانی، کرپشن، اقربا پروری، منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کو لعنت قرار دیا اور اس یقین کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان کو ان لعنتوں سے پاک کریں گے۔ افسوس کہ گیارہ اگست کی تقریر کے ان بنیادی اصولوں کو کبھی قابل ذکر نہیں سمجھا گیا اور سارا زور ان فقروں پر صرف کر دیا جاتا ہے کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے اور اس سے کاروبار سلطنت متاثر نہیں ہو گا۔ قائد اعظم اس اصول کو اسلامی تعلیمات کا حصہ سمجھتے تھے اور بار بار اس عزم کا اعادہ کرتے رہے کہ پاکستان کے قانون اور دستور کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی اور قرآن مجید ہی ہمارے قوانین کا منبع ہے۔
کہاں قائد اعظم کا قیام پاکستان میں روحانی ترقی کا خواب دیکھنا اور کرپشن، اقربا پروری، سفارش اور منافع خوری کو لعنت قرار دینا اور کہاں آج کا پاکستان جس پر پاناما سکینڈل کے سائے چھائے ہوئے ہیں، مقتدر طبقوں کی لوٹ مار اور بیرون ملک جائیدادوں کے قصے زبان زدعام ہیں، اقربا پروری اور سفارش، بے انصافی اور غربا کی محرومی، لاقانونیت اور کرپشن ہماری قومی زندگی کے اٹوٹ انگ بن چکے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک یہ حقیقت ہے کہ ہم نے ان برائیوں سے سمجھوتہ کر لیا ہے، انہیں لازم و ملزوم سمجھ لیا ہے اور ان کے تدارک کے لئے کہیں بھی منظم تحریک نظر نہیں آتی۔ یقین رکھیے کہ پاناما کیس کا فیصلہ خودبخود کرپشن کا تریاق ثابت نہیں ہو گا بلکہ اس کے لئے قانون سازی کے ساتھ ساتھ باقاعدہ ایک منظم اور طاقتور تحریک کی ضرورت ہو گی جو عوام میں کرپشن کے خلاف مزاحمت کا جذبہ بلکہ عزم پیدا کرے۔ جب تک عوام کرپٹ سیاسی عناصر کو مسترد نہیں کریں گے اس وقت تک اقتدار پر ایسے ہی عناصر کا غلبہ رہے گا اور اوپر سے لے کر نیچے تک کرپشن کا سلسلہ یونہی قائم رہے گا۔

.
تازہ ترین