• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم خوف کے حصار میں ہیں۔ ’’خوف سے آزادی حاصل کئے بغیر اظہار رائے، مذہب، عقیدے، تحقیق و جستجو اور سوال کرنے کی آزادی محض ایک کلیشے ہے‘‘۔ یہ لکھا ہے فرح ضیا نے اپنے انگریزی مضمون میں۔ یہ مضمون 23 مارچ کو آنے والے یوم آزادی کے حوالے سے لکھا گیا ہے۔ سچ ہے، اب تک یہ خوف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں اور شدت پسند جماعتوں اور انتہا پسند عام آدمی کا ہی تھا۔ لیکن اب اس خوف میں وہ ادارے بھی شامل ہو گئے ہیں جن سے ہم عدل و انصاف کی توقع رکھتے ہیں۔ اب سوشل میڈیا بھی اس خوف کی زد میں آ گیا ہے۔ چھان بین کی جا رہی ہے کہ سوشل میڈیا پرہمارے نظریے اور ہمارے عقیدے کے خلاف کیا اول فول بکا جا رہا ہے۔ اور یہ کہ ایسے سوشل میڈیا پر پابندی لگا دی جائے۔ ہم سوشل میڈیا کے رسیا ہیں۔ صبح ہماری آنکھ سوشل میڈیا پر کھلتی ہے اور رات کو انٹرنیٹ پر تیراکی کئے بغیر ہمیں نیند ہی نہیں آتی۔ ہمیں دنیا بھر میں کئے جانے والے علمی، سیاسی اور معلوماتی تجزیے پڑھنے اور دنیا بھر کے اخباروں اور کتابوں کی ورق گردانی سے فرصت ہی نہیں ملتی کہ کسی اور اول فول یا گھنائونے مواد کی طرف نظر دوڑائیں۔ حیرت ہوتی ہے ان اصحاب پر جن کے پاس اتنی فرصت اور اتنی ہمت ہے کہ وہ سوشل میڈیا سے اپنے علم اور معلومات میں اضافہ کرنے کے بجائے ایسی گھٹیا اور گھنائونی چیزوں پر وقت ضائع کرتے ہیں جو ہمارے عقیدے اور ہمارے مذہب کے خلاف ہیں۔ سوال تو ان سے کیا جانا چا ہئے کہ وہ اس لعنت تک پہنچے ہی کیسے؟ ہمیں تو کبھی خیال ہی نہیں آیا کہ ہم ان لعنتی چیزوں پر اپنا وقت ضائع کریں۔ دنیا ایسی گندگی سے بھری پڑی ہے۔ ہم اس پر توجہ دے کر خواہ مخواہ دوسروں کو بھی اس طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارا کام تو یہ ہے کہ ہم اس گلی میں جائیں ہی نہیں جہاں غلاظت پھیلی ہوئی ہے۔
لیجئے، ہم چلے تھے فہمیدہ ریاض کے ناول ’’قلعۂ فراموشی‘‘ پر بات کرنے اور لے بیٹھے خوف اور خطرے کو۔ لیکن فہمیدہ ریاض بھی تو ساری زندگی اس خوف سے آزادی کے لئے ہی جدوجہد کرتی رہی ہیں۔ ان کا یہ ناول بھی اسی خوف سے آزادی کے لئے لکھا گیا ہے۔ ہم نے کہا کہ صبح ہماری آنکھ انٹرنیٹ پر کھلتی ہے اور انٹرنیٹ پر سب سے پہلے فہمیدہ ریاض کی میل ہی پڑھتے ہیں۔ وہ ملکی اور عالمی حالات پر جو بے لاگ تبصرے کرتی ہیں ان سے ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ وہ بھی اپنی صبح کا آغاز انٹرنیٹ سے کرتی ہیں۔ اور رات کو شب بخیر کہے بغیر انٹرنیٹ سے نہیں جاتیں۔ لیکن یہ ایک دو ہفتے پہلے کی بات ہے۔ دو ہفتے پہلے ان کی زندگی کا دوسرا جانکاہ حادثہ ہوا۔ ان کی بہن اور بہنوئی حیدر آباد سے کراچی آ رہے تھے تو ایک ٹرالر نے ان کی گاڑی کو کچل دیا۔ بہنوئی اس حادثے میں جاں بحق ہو گئے اور بہن بری طرح زخمی ہوئیں۔ اس کے بعد سے ہم فہمیدہ کی میل سے محروم ہیں۔ لیکن اس سے پہلے فہمیدہ اس سے بھی بڑا صدمہ برداشت کر چکی ہیں۔ چند سال پہلے ان کا جوان بیٹا امریکہ میں کسی تالاب میں ڈوب گیا تھا۔ اس حادثے پر فہمیدہ نے جو طویل نظم لکھی ہے وہ کٹھور سے کٹھور دل کو بھی پگھلا دیتی ہے۔ ان کا جو نیا شعری مجموعہ چھپا ہے اس کا نام ہی ’’تم کبیر‘‘ ہے۔ ان کے بیٹے کا نام کبیر تھا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس حادثے کے بعد فہمیدہ کو ان کی تخلیقی اپج نے ہی اپنے عصاب پر قابو رکھنے میں مدد دی ہے۔ ان کا ناول ’’قلعۂ فراموشی‘‘ ان کی تخلیقی اپج اور ان کے ان خوابوں کی ہی دین ہے جو خواب ہماری دنیا کو مثالی دنیا بنانے کے لئے دیکھے جاتے ہیں۔ فہمیدہ کے لئے مثالی دنیا وہ سوشلسٹ دنیا ہے جہاں طبقاتی تقسیم مٹ جاتی ہے اور چھوٹے بڑے سب برابر ہو جاتے ہیں۔ اس مثالی دنیا کی تلاش میں وہ پانچویں صدی کے ایران پہنچ جاتی ہیں اور تاریخ کے پہلے سوشلسٹ انقلابی ’’مزدک‘‘ کی زندگی اور اس کی جدوجہد کو اپنے ناول کا موضوع بناتی ہیں۔ مزدک کے دور، اس کی زندگی اور اس کی جدوجہد کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کے لئے وہ اس دور کی تاریخ کھنگالتی ہیں۔ وہ فردوسی کا شاہنامہ پڑھتی ہیں، زرتشتی مذہب کی مقدس کتاب ’’اوستا‘‘ کا مطالعہ کرتی ہیں، بائبل اور تاریخ طبری سے مدد لیتی ہیں اور پھر ڈنمارک کے مستشرق ڈاکٹر آرتھر کرسٹن سین کی تحقیقی کتاب سے اس زمانے کے رسم و رواج، کھانے پینے اور لباسوں کے بارے میں معلومات حاصل کرتی ہیں۔
اب یہ نہ سمجھ لیجئے کہ یہ ناول صرف تاریخ ہی ہے۔ یہ ناول ہے اور نہایت دلچسپ ناول۔ اس میں جہاں تاریخی کردار ہمارے سامنے آتے ہیں وہاں ناول نگار کے تخلیقی ذہن نے ناول کو ایک معیاری ناول بنانے کے لئے چند نئے کردار بھی متعارف کرائے ہیں۔ ہم یہ ناول پڑھتے ہوئے جہاں چوتھی اور پانچویں صدی کے ایران کو اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں وہاں اس زمانے کے نظریات اور عقائد اور ان عقائد کی کشمکش تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ ہمیں اس زمانے کے سیاسی جوڑ توڑ بھی اپنی پوری تفصیل کے ساتھ یہاں ملتے ہیں۔ مزدک کون تھا؟ طبقاتی مساوات کے خواب دیکھنے والا اور ان خوابوں کو سچی تعبیر دینے والا ایک صاحب بصیرت انسان۔ فہمیدہ کی تحقیق کہتی ہے کہ مزدک ایک نیک دل اور انصاف پسند آدمی تھا۔ اس نے ساسانی سلطنت میں عام آدمی کی حالت زار دیکھی تو اسے بدلنے کی جدوجہد کی۔ اس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوا۔ اس نے ایک اشتراکی معاشرے کی داغ بیل ڈالی۔ تاریخ کہتی ہے کہ قدیم ایران میں یہ غیر طبقاتی معاشرہ پورے سات سال موجود رہا لیکن بعد میں وہی ہوا جو اس قسم کے یو ٹوپیائی معاشروں کا ہوتا ہے۔ اس ناول میں یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ اس زمانے میں ایسا معاشرہ اتنے سال کیسے قائم رہا؟ اس کا جواب فہمیدہ ریاض یہ دیتی ہیں کہ مزدک کو شہنشاہ وقت اور افواج کی حمایت حاصل ہو گئی تھی۔ شہنشاہ اور افواج کو مذہبی کاہن اور ان امرا سے خطرہ تھا جو ان کی سلطنت ختم کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے بادشاہ اور فوج کو اپنے بچائو کے لئے مزدکی تحریک کی مدد کی ضرورت تھی۔ لیکن جب سلطنت کے ان بھاری بھرکم ستونوں کا باہمی تصادم ختم ہو گیا تو انہیں مزدکی تحریک کی ضرورت نہ رہی۔ اور آخرکار تاریخ کا وہ پہلا اشتراکی دور ختم ہو گیا۔ اب ذرا اپنی آج کی تاریخ پر بھی نظر ڈال لیجئے۔ کیا ہمارے ہاں بھی ایسا ہی نہیں ہوتا؟ یہ سمجھنے کے لئے بھی یہ ناول ضرور پڑھئے۔ فہمیدہ ریاض کو اپنا یہ ناول اتنا پسند ہے کہ کراچی کے پچھلے ’’جشن ادب‘‘ میں جب ان کی دو کتابوں پر پروگرام ہو رہا تھا تو وہ بار بار حاضرین سے کہہ رہی تھی کہ ’’قلعۂ فراموشی‘‘ ضرور پڑھئے۔ حالانکہ اس کے ساتھ ہی ان کے نئے شعری مجموعے ’’تم کبیر‘‘ پر بھی بات ہو رہی تھی۔

.
تازہ ترین