• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
23مارچ 1940ء قیام پاکستان کی قرارداد کی منظوری کا دن ہے بلکہ پاکستان کو آزاد و خودمختار، پرامن، خوشحال، مضبوط و محفوظ اور روشن خیال جمہوری ملک بنانے کے عہد کا دن بھی ہے، 70برسوں کے دوران ہر محاذ پر بے تحاشا چیلنجز اور مشکلات کے ساتھ ساتھ گزشتہ دو تین دہائیوں سے بدترین دہشت گردی کا شکار ہونے کے باوجود پیارے ملک کے بہادر باسیوں نے کسی بھی طور کبھی خود کو لاچار و بے بس نہیں سمجھا، یہی وجہ ہےکہ وہ ہرامتحان میں کامران و کامیاب ہو کر نکلے ہیں، اب بھی آئے روز دہشت گردی کے بدترین واقعات اور خطرات کے باوجود بچوں اور خواتین سمیت ہر عمر کے افراد روزانہ ایک نئے عزم و حوصلے کے ساتھ وہ تعلیمی، معاشی اور اقتصادی ترقی کی منزل کے حصول کے لئے کوشاں ہیں، بلاشبہ آزاد ملک کے حصول کے بعد تکمیل پاکستان کا سفر عزم مصمم کے ساتھ جاری ہے، اہم اور مثبت اشاریئے روشن منزل کے لئے کوششوں کو جلا بخش رہے ہیں، لیکن ابھی کئی امتحان باقی ہیں، زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو گزشتہ چند برسوں میں دہشت گردی کےخلاف ملک کے اندر مختلف محاذوں پر بے شمار عسکری کامیابیوں نے عوام کو تحفظ کا احساس دیا ہے، آرمی کے سابق سپہ سالار جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کی تین سالہ حکمت عملی اور کامیابیوں کی نئی جہتوں کو چھوا اور ملکی وعالمی سطح پر خوب پذیرائی حاصل کی تاہم پرامن ماحول کو محض فوجی طاقت کے تناظر کی بجائے سیاسی و جمہوری اخلاص اور رویوں سمیت سویلین اداروں کے ذریعے ٹھوس ومستحکم بنایا جانا ضروری ہے، اس مقصد کی خاطر بیورو کریسی کو سیاسی حکومتوں کا پروردہ و محکوم بنانے کی بجائے انہیں ریاستی و عوامی خدمت کے جذبے سے شعار کرنا حقیقی چیلنج ہے اور قومی اداروں کو ذاتی مقاصد کے استعمال سے بالاتر ہو کر ’’طاقت ور‘‘ بنانا بھی لازم و ملزوم ہے۔ بیرونی محاذ پر بہادر مسلح افواج نے قربانیوں کے ساتھ سرحد پار دشمن کےعزائم کو ناکام و مراد بنایا ہے تاہم اب وقت آ گیا ہے کہ قائداعظم کے پرامن ہمسائیگی کے خواب کو سنجیدہ سیاسی بصیرت و سمجھدار سفارت کاری کی مہارت سے شرمندہ تعبیر کیا جائے۔ تقریباً ایک دہائی قبل ’’مُش آمریت‘‘ کے اثرات کے مکمل خاتمے، جموریت پرشب خون کو ہمیشہ کے لئے قصہ پارینہ بنانے اور ڈکٹیٹر شپ کے خطرات کو تاریخ کی کتابوں کا صفحہ بنانے کے لئے سیاسی قیادت کو عوام کی حقیقی نمائندگی کا حق ادا کرنا ہو گا، چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کے بعض حالیہ اقدامات مضبوط جمہوری رویوں کے عکاس اور مثال ہیں جس میں پارلیمنٹ کی راہداریوں میں ’’دستور گلی‘‘ اور پارلیمنٹ کے میدانی احاطے میں ’’یادگار جمہوریت‘‘ کا قیام شامل ہیں۔ معاشی و اقتصادی محاذ پر پاکستان کےبارے میں عالمی رائے میں واضح تبدیلی آئی ہے اور مسقتبل کے بارے میں خوش کن پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں تاہم مقامی و عالمی سرمایہ کاروں کے اعتماد کا حصول ابھی باقی ہے، موجودہ اور آنے والی نسل کو اندرونی و بیرونی قرضوں سے آزاد کرنے کی ذمہ داری کو پورا کرنا ضروری ہے، پاک چین اقتصادی راہداری کے اعلان نے پاکستان کو خطے کا اہم ترین ملک بنا دیا ہے، اس خواب کی تکمیل کے لئے اور اپنےمفادات کے تحفظ کے لئے ہمیں ’’جاگنا‘‘ ہو گا اور دیکھنا ہو گا کہ 46ارب ڈالر کی ’’سرمایہ کاری‘‘ ہمارے مستقبل کو تابناک بنانے کی بجائے قوم کے گلے کا طوق نہ بن جائے۔ کوئی شک نہیں رہنا چاہئے کہ چین جیسی دنیا کی ابھرتی طاقت پاکستان کا مخلص دوست ہی نہیں بلکہ کشمیر کےحوالے سے سفارتی موقف کا بھی حمایتی ہے لیکن پاک بھارت تعلقات کی بہتری اور خطے میں امن کے قیام کے لئے کشمیر کے تصفیے کا ’’نیا‘‘ راستہ اور حل تلاش کرنا ہو گا۔
ملک میں19سال بعد سپریم کورٹ کے حکم پر مردم شماری کے انعقاد نے اس خیال کو تقویت دی ہےکہ گھر کے سربراہ (حکومت) کو پتا چل جائے گا کہ گھر کے افراد (عوام ) کتنے ہیں اور ان کی ضروریات و مسائل کیا ہیں اور انہیں حل کیسے کیا جائے، اس عمل کی شفافیت ضروری ہے جس کے بعد کئی بڑے چیلنجز بھی سامنے آئیں گے جن کے حل کے لئے ’’دل گردے‘‘ اور پر خلوص و نیک نیت اقدامات کی ضرورت ہو گی اس کے بعد شاید ہماری توجہ ’’منصوبہ بندی‘‘ کی طرف بھی مبذول ہو جائے۔ ملک میں قانون و آئین کی عمل داری کے حوالے سے بعض فیصلے تسلی بخش ضرور ہیں کہ دہشت گردی، کرپشن اور دیگر سنگین جرائم کے بھیانک اسکینڈلز سامنے لائے گئے اور ان میں سابق و موجودہ طاقتور وزرا و بااثر افراد پر ہاتھ بھی ڈالا گیا ہے لیکن تفتیش و تحقیق سمیت نظام انصاف کو آزاد ومضبوط بنانے کےاقدامات کو محض دعوے تک محدود نہیں رہنا چاہئے۔
ملک کے معاشی گڑھ کراچی میں آسیب کا طلسم ٹوٹ چکا، تاہم دہشت گردی اور کرپشن کے گٹھ جوڑ کی حقیقت کو سامنے ابھی تک نہیں لایا گیا، کوئی شک نہیں کہ ان جرائم کا خاتمہ فوری اور مکمل طور پر ابھی نہیں لیکن عوام کے اعتماد اور امن کی مستقل بحالی کےلئے مشکل اور بڑے اقدامات بھی اب اٹھائے جائیں۔ آئی ٹی سمیت مختلف تعلیمی شعبوں میں پاکستانی ہونہاروں نے بڑی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے ہیں لیکن نظام تعلیم کو ترجیح بنا کر نئے خطوط پر استوار کرنے، طلبہ کی بہتر انسان کےطور پر آبیاری کے اقدامات کرنا ہوں گے، مدارس کو قومی دھارے میں لانے کے لئے اصلاحات، جدید تعلیمی نصاب سے ہم آہنگ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ امرحوصلہ افزا ہےکہ ملک میں خواتین اور مردوں کے درمیان تعلیم حاصل کرنے کے رجحان میں گیپ Gapeکم ہوا ہے، لیکن ختم نہیں ہوا، اس بارے میں عملی اقدامات کرنا ہوں گے، خواتین نے ہر شعبہ ہائے زندگی میں بہترین اور موثر کردار ادا کیا ہے، مسلح افواج میں ان کی شمولیت بہادری کی قابل قدر مثال ہے لیکن معاشرے میں ان کی عزت و تکریم بڑھانے اور حقیقی مقام دلانے کےلئے محض قانون سازی نہیں بلکہ پارلیمنٹ سے لے کر ہر سطح پر سب کو اپنے ’’رویوں‘‘ اور ’’کردار‘‘ کو مثالی بنانا ہو گا۔ امن و امان کے مشکل ترین حالات میں پی ایس ایل فائنل کا لاہور میں انعقاد اور اس میں غیر ملکی کھلاڑیوں اور مبصرین کی شرکت نے پوری قوم کو نیا حوصلہ دیا ہے، دنیا کے بڑھتے اعتماد کو یقین میں بدلنے کے لئے ہمیں اپنے اقتدار کے ’’چھوٹے‘‘ سے فائدے پر قومی مفاد کو ترجیح بنانا ہو گا، قارئین کرام ہمارے لئے قابل فخر اور دنیا کے لئے باعث حیرت ہے کہ دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، بے روزگاری، غربت اور آئے دن کی سخت پریشانیوں کے باوجود پاکستانی ایک زندہ دل اور مضبوط قوت ارادہ رکھنے والی قوم ہیں، کسی بھی نوعیت کا بدترین اور سنگین واقعہ ان کی طاقت میں مزید اضافہ کر دیتا ہے،70 برس کے اچھے برے تجربات کے بعد ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اقبال کے ’’خودی‘‘ کا روشن چراغ لے کر بڑھنے سے آزاد و خود مختار جمہوری وطن کی امنگ جلد حقیقت کا روپ دھار سکتی ہے، ہم آگے بڑھ رہے ہیں بہت کچھ کر رہے ہیں لیکن ابھی سفر پرخطر اور طویل ہے اور ہم سب کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔

.
تازہ ترین