• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ انگلینڈ ہے ... انداز بیاں…سردار احمد قادری

لندن کے ہیتھرو ائرپورٹ پر اترنے سے پہلے یوں محسوس ہوا جیسے ہم کسی سبزہ زار پر اترنے والےہیں، جہاز جوں جوں زمین سے قریب آرہا تھا ہرطرف درختوں کی قطار اور بڑے بڑے سبز قطعات اور پلے گرائونڈ تھے کالی چھتوں والے چھوٹے چھوٹے گھروں کے اردگرد سبز رنگ اور بھی گہرا نظرآتا تھا پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں زرعی آب پاشی کے لئے دنیا کا بڑا نہری نظام ہے۔ وہاں ہرطرح کا موسم ہے اور ہرطرح کے پھل پیدا ہوتے ہیں لیکن سال کا بیشتر حصہ سبزہ دیکھنے کو آنکھیں ترس جاتی ہیں یا تو ان دنوں نظرآتا ہے جب گندم کی فصل ابھی پک کر تیار نہ ہوئی ہو۔ اس کی بالیاں ابھی ہری ہوں تو ہرطرف سبزے کی بہار نظرآتی ہے یا پھر سرسوں کا موسم آتا ہے اور تاحد نگاہ سرسوں کے کھیت نظرآتے ہیں تو نظر کو اچھا لگتا ہے۔ ورنہ عام طور پر دھول اڑتی رہتی ہے اور میں تو ملتان سے آیا ہوں جس کے متعلق کہا گیا ہے۔
چار چیز است تحفہ ملتان
گرد و گرما گداد گورستان
لہٰذا جو چیز انگلینڈ کی سب سے زیادہ اچھی لگی وہ یہاں کے لوگوں کا فطرت سے پیار اور حسن فطرت کو محفوظ رکھنے اور ہر علاقے کو اس کے قدرتی نظارے سے مستفید کرنے کے لئے حکومتی اقدامات ہیں ہندوستان میں مغلیہ دور حکومت میں ہر بڑے شہر میں مختلف علاقوں میں باغ لگائے جاتے تھے تاکہ لوگ وہاں جائیں سستائیں آرام کریں لیکن جب سے مملکت خدادادپاکستان معرض وجود میں آئی ہے باغات کا سلسلہ سکڑتا چلاگیا اور اس کی تعمیر سیمنٹ اور سریے کی بدنما عمارتوں نے لے لی ہے۔ لاہور ہو یا ملتان اب باغوں کے نام تاریخ کی کتابوں میں باقی رہ گئے ہیں جو حکومت اور پراپرٹی مافیا کی زد سے بچ گئے ہیں ان کی حالت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن انگلینڈ میں ایسا نہیں ہے ، نہیں ہوسکتا کیونکہ یہاں کے لوگوں کو کھلے میدانوں سے، سبزہ زار سے اور حسن فطرت سے پیار ہے، ائرپورٹ کے امیگریشن ڈیسک پر متعین آفیسر سے ہلکی پھلکی گفتگو ہوئی جہاز سے ہی خوبصورت نظاروں کے مشاہدے سے ہی برطانیہ کے طول وعرض کو دیکھنے کی تمنا اور خواہش بیدار ہوگئی تھی۔ جب امیگریشن آفیسر نے مسکرا کر مجھے ’’گڈآفٹرنون‘‘ کہ کر سہ پہر کا سلام کیا اور پوچھا کہ برطانیہ میں کیسے آنا ہوا؟ تو میں نے بے تکلفی سے بتایا کہ یہ خوبصورت ملک دیکھنے کے لئے آیا ہوں اور یہاں کے لوگوں سے ملنا چاہتا ہوں۔ اس نے بڑے سلیقے سے دوسرا سوال پوچھا کہ آپ بتانا پسند کریں گے کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ میں نے بتایا کہ میں ایک ایڈووکیٹ ہوں عدالت میں قانون کی پریکٹس کرتا ہوں اور گرمیوں کی چھٹیوں پر آیا ہوں یک دم اس کا لہجہ اور بھی مودبانہ ہوگیا ہے اوراس نے ’’سر‘‘ کہ کر مجھے مخاطب کیا اور کہا کہ ایک ذاتی سوال کرنا چاہتا ہوں اگر آپ برا نہ منائیں تو کیا آپ بتائیں گے کہ آپ شادی شدہ ہیں کہ نہیں؟ میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ’’شادی تو کروں گا لیکن یہاں نہیں پاکستان میں، وہاں میری منگنی ہوچکی ہے اور میں اپنا وعدہ توڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا‘‘۔ وہ مسکرایا اور پوچھا کتنے مہینے کا ویزا چاہیے، میں نے کہا ’’تین ماہ کافی ہے‘‘ لیکن اس نے چھ ماہ کا ویزے کا ٹھپہ لگاکرپاسپورٹ میرے حوالے کیا اور برطانیہ کے قیام کو ’’انجوائے‘‘ کرنے کی دعا دی، حسب توقع باہر علامہ منظوراحمد رضوی، قاری ارشاد احمد رضوی اور ان کے برادربزرگ مولانا بشیر احمد چشتی مرحوم مجھے لینے کیلئے آئے ہوئے تھے۔ اتنے میں میرے ہم سفر مولانا نوراحمد ریاض بھی امیگریشن آفیسر کے تفصیلی سوالات بذریعہ ترجمان جوابات دینے کے بعد بالآخر باہر آگئے تھے، ہم کار میں بیٹھے، جونہی کار ائرپورٹ سے نکلی پھر ہرطرف میرے دائیں بائیں سبزہ ہی سبزہ تھا، شام کے تقریباً چار بجے تھے لیکن سورج پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا۔ رضوی صاحب نے بتایا کہ پچھلے چند دنوں سے موسم بہت اچھا ہوگیا ہے اور خوب دھوپ نکل رہی ہےپوچھنے پر معلوم ہوا کہ ابھی مغرب کو تین چار گھنٹے باقی ہیں۔ ہم گھر جانے کی بجائے لندن کے مرکزی علاقے میں جائیں گے شہر کی سیر کریں گے۔ مغرب لندن کی جامع مسجد میں پڑھیں گے اور پھر گھر چلیں گے۔ میں نے پوچھا کہ لندن جیسے مہنگے اور بین الاقوامی تجارتی مرکز میں جگہ جگہ وسیع وعریض پارک دیکھ کر میں حیران رہ گیا ہوں۔ میں تو جہاز کی کھڑکی سے ہی ان کی وسعت دیکھ کر خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوگیا ہوں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ رضوی صاحب کہنے لگے کہ انگریز قوم کو اپنے تاریخی ورثے سے بہت پیار ہے جو قدیم تاریخی عمارات، لائبریریوں، میوزیم پارک انہوں نے برٹش ایمپائر کے دنوں میں بنائی تھیں ان کو محفوظ رکھنے اور ان کی تزئین وآرائش کے سلسلے میں یہ بہت محتاط ہیں۔ انہوں نے ایک لطیفہ سنایا کہ ایک عرب بادشاہ نے لندن کے وسط میں میلوں پر پھیلے ہوئے ہائیڈ کے ایک حصے کو خریدنے اور وہاں محل بنانے کی خواہش ظاہر کی تو لندن سٹی کونسل کی انتظامیہ نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اپنے بزرگوں کی یادگار نہیں بیچتے اور نہ ہی انہیں تباہ ہونے دیتے ہیں۔ ایک اور بادشاہ کے متعلق معلوم ہوا کہ اس نے لندن کا ایک قدیم محل جو مرمت کے قابل تھا خریدلیا جس کی مرمت پر کئی ملین پونڈ خرچ ہوئے۔ باتوں باتوں میں ہم ٹریفالگر سکوائر پہنچ گئے۔ یہ وہی چوک ہے جسے تصویروں میں کئی بار دیکھ چکا تھا ہرطرف سیاح بکھرے پڑے تھے اور کبوتر اردگرد اٹکیلیاں بھرتے تھے چند سیاح ان کبوتروں کو اپنے کاندھے پر بٹھا کر تصویر لینے کا شوق پورا کرتے جب لندن کی ان تاریخی عمارات کو دیکھ رہا تھا جنہیں صدیوں کی گردش ایام نے سیاہ کردیا تھا لیکن پھر بھی محفوظ تھیں تو مجھے خیال آیا کہ مسلمانوں نے کیسی کیسی شاندار عمارات تعمیر کی تھیں لیکن ان مسلم معماروں کے ان شاہکاروں کی ہم نے دیکھ بھال نہ کی اور یوں عدم توجہی کی وجہ سے وہ رفتہ رفتہ زمین بوس ہوکر عبرت کا نشان بن گئیں جہاں اب صرف کھنڈرات ہیں اور شکستہ درودیوار ہیں اور جہاں یہ اچھی حالت میں رہ گئی تھیں انہیں شرک و بدعت کے فتووں سے منہدم کردیا گیا۔ لندن کی مرکزی جامع مسجد ریجنٹ پارک کو دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی، بتایا گیا کہ مصر میں قاہرہ کے عین وسط میں مصری حکومت نے برطانوی حکومت کو چرچ بنانے کے لئے جگہ دی تھی اس کے جواب میں خیرسگالی کے طور پر برطانوی حکومت نے لندن کے مرکزی علاقے خوبصورت ریجنٹ پارک میں یہ جامع مسجد بنانے کیلئے یہ اراضی مفت دی تھی۔ اس کی عالیشان عمارت لندن کے حسن میں اضافہ کرتی ہے، یہاں کا امام مصر سے آتا ہے اور تمام اسلامی ممالک کے سفیر اس کی انتظامیہ میں شامل ہیں۔ علامہ رضوی صاحب کے گھر ان کی اہلیہ مرحومہ نے پرتکلف کھانے کا اہتمام کیا تھا۔ وہاں ایک دن قیام کے بعد مولانا بشیراحمد چشتی محبت سے اپنی رہائش گاہ پر لے آئے جب وہ اکیلے قیام پذیر تھے۔ چند دنوں کے بعد ان کے ہمراہ ایک مذہبی اجتماع میں گیا تو میرا خیال تھا کہ یہاں انگریزی زبان میں علماء تقاریر کررہے ہوں گے دینی سکالر اپنے تحقیقی مقالے پیش کررہے ہوں گے لیکن وہاں جاکر حیرانی ہوئی کہ گھن گرج کے ساتھ زوردار انداز سے اردو اور پنجابی میں زور خطابات دکھایا جارہا تھا۔ شعراء اور نعت خوان پنجابی اور پھوٹوہاری عارفانہ کلام پیش کررہے تھے اور ہرطرف سے پائونڈوں کے نذرانوں کی برسات ہورہی تھی کسی نے چپکے سے کان میں کہا، یہ انگلینڈ ہے۔

.
تازہ ترین