• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قائداعظم کی فلاحی ریاست ... تحریر:محمد صادق کھوکھر…لیسٹر

اس میں کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ قائد ا عظمؒ پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے فلاحی ریاست ایک ایسی ریاست ہوتی ہے جو عوام کی آرزووں اور امنگوں کی صحیح ترجمان ہو جو عدل و انصاف، مساوات اور برابری کے اصولوں پر قائم ہو جہاں فیصلے مشاورت سے ہوں جہاں غریب، بے سہارا اور معذور افراد کی کفالت کی ذمہ داری ریاست کی ہو تعلیم اور ترقی کے مواقع سب کیلئے یکساں ہوں اور کوئی بالادست طبقہ مسلط نہ ہو۔ جہاں سب شہری مل جل کر رہیں اور معاشرہ عصبیتوں سے پاک ہو۔ جہاں قوانین بدیسی معاشروں کی بجائے اپنے ملک کی معاشرتی اور تہذیبی اقدار کی عکاسی کرتے ہوں ایسی ریاست ہی فلاحی ریاست کہلانے کی حقدار ہوتی ہے۔ قائداعظمؒ کے فرمودات سے بھی ایسی ہی فلاحی ریاست کا تصور اجاگر ہوتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے مطالبے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں وہ خود اپنی تہذیبی ارتقاء اپنی روایات اور اسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کر سکیں۔ 19مارچ 1944 مسلم سٹودنٹس فیدریشن لاہور۔اسلام محض چند رسوم، اور مذہبی اصولوں کا نام نہیں بلکہ مسلمانوں کے سیاسی، اقتصادی اور دیگر مسائل کی رہبری کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ 25 جنوری 1948 ۔اس سے قبل 28اگست 1947کو کراچی بلدیہ کی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ ہمارا مقصد نہ صرف ہر نوع کا خوف اور بھوک دورکرنا ہونا چاہیے بلکہ آزادی، بھائی چارا اور مساوات کی حفاظت بھی جو فرض اسلام ہم پر عائد کرتا ہے ان فرمودات سے یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ قائداعظمؒ نئی ریاست کی بنیاد اسلام کے اصولوں پر استوار کر نے کا اعلان کرتے ہیں۔ اسلامی فلاحی ریاست ایک طرف عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لیے جدو جہد کرتی ہے تاکہ خدا کی مخلوق کی پریشانیاں دور ہوں اور دوسری طرف ان عوامل کا بھی قلع قمع کرتی ہے جو خرابی کا باعث بنتے ہیں۔ مثلا سیکولر ریاست شراب کی تمام تر خرابیوں کے باوجود بھی اس پر پابندی نہیں لگاتی لیکن اسلامی ریاست پابندی لگا دیتی ہے تاکہ لوگ شرابی شراب پی کر بیوی بچوں کی پٹائی نہ کریں۔ دولت کے اررتکاز کو روکنے کیلئے اسلام کا قانونِ وراثت ایک عمدہ طریقہ ہے۔ جوئے اور لاٹری کی بھی اسلام اس لیے اجازت نہیں دیتا کیونکہ سیکڑوں اور ہزاروں افراد اپنی جمع پونجی اس امید پر لٹا دیتے ہیں کہ وہ راتوں رات امیر ہو جائیں گے۔ اس قبیح عمل سے کئی گھرانےاجڑے اور برباد ہوئے ہیں۔ سود کی خرابیاں بھی عیاں ہیں سچی بات تو یہ ہے کہ حقیقی فلاحی ریاست صرف اسلامی ریاست ہی ہوتی ہے جس میں ان عوامل کا ہی خاتمہ کر دیا جاتا ہے جو خرابیوں کا باعث بنتے ہیں جبکہ سیکولر ریاست صرف خواہشات کے پیچھے بھاگتی ہےاس لیے افراط و تفریط کا شکار رہتی ہے، اس کے برعکس اسلامی ریاست ایک نہایت ہی متوازن نظام ہے جس میں سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظام کی خرابیاں بھی پیدا نہیں ہوتیں۔ سچے مسلمان زکوٰۃ، صدقات اور عشر کی ادائیگی دوسری عبادات کی طرح دل و جان سے کرتے ہیں۔ اسلامی ریاست رفاہ عامہ کے لیے دیگر ٹیکس بھی نافذ کر سکتی ہے۔ یہ ریاست معاشرے کی اصلاح کے لیے تعلیم و تربیت بھی کرتی ہے تاکہ عام لوگوں کی روحانی اور مادی دونوں ضروریات پوری ہوں اور ایسا معاشرہ تشکیل پائے جس میں ہمدردی اور خیر خواہی کے جزبات پیدا ہوں- پاکستان میں اس وقت جو لوگ ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اسے ایک ایسی ریاست بنا دیا ہے جہاں رشوت، شفارش، بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کا دور دورہ ہے۔ ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، اور نمود و نمائش کا کلچر فروغ پا رہا ہے۔ حکمران اور سرکاری اہل کار اہلیت اور میرٹ کی بجائے اپنے من پسند کے افراد کو نوکریاں دے رہے ہیں۔ سرکاری محکموں میں ضرورت سے زیادہ لوگ بھرتی کیے ہوئے ہیں۔ تعلیمی شعبے میں بھی طبقاتی نظام مسلط کیا ہوا ہے عام لوگوں کے بچے سرکاری سکولوں میں تعلیم کے نام پر خوار ہوتے ہیں۔ ان کے لیے الگ نظامِ تعلیم ہے لیکن نجی تعلیمی اداروں میں مخصوص نظامِ تعلیم ہےمواقع ان ہی طلبہ کو زیادہ ملتے ہیں جنہوں نے نجی سکولوں سے تعلیم حاصل کی ہوتی ہے۔ اب صورتِ حال بڑی گھمبیر بنتی جا رہی ہے۔ ملک کے کروڑوں عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں امیر اور غریب کا فرق بہت بڑھ گیا ہے اور یہ فرق مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ عوام کے منتخب نمائندے اپنی تنخواہیں خود ہی بڑھاتے جا رہے ہیں۔ یہی مسلط طبقہ بڑے طمطراق سے قائداعظمؒ کو کبھی سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کبھی سوشسلٹ اور کبھی بغیر سوچے سمجھے کہنے لگتے ہیں کہ پاکستان کے حصول کا مقصد اسلامی ریاست بنانا مقصود نہیں تھا بلکہ قائداعظمؒ مسلمانوں کے لیے فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ گویا ان کی نظر میں اسلامی ریاست فلاحی نہیں ہو سکتی ڈھٹائی کی بھی حد ہوتی ہےاسلامی ریاست تو ہوتی ہی فلاحی ریاست ہےیہ تمام شہریوں کی ضروریات کی کفیل ہوتی ہے جس میں غیر مسلم بھی شامل ہوتے ہیں۔ اسلام کا نظامِ کفالت ِ عامہ اسلامی ریاست کے تمام باشندوں کے لیے ہے۔ اس میں رنگ، نسل ،مذہب کی تمیز نہیں ہوتی یہی وجہ تھی کہ غیر مسلم بھی اسلامی ممالک میں خوش رہتے تھے۔ اس لیے قائداعظمؒ نے فرمایا تھا کہ میرا ایمان ہے کہ ہم سب کی نجات ان سنہری قواعد اور زریں احکام کی پیروی میں مضمر ہے جو ہمارے رہن سہن اور معاملاتِ زندگی کو درست رکھنے کیلئے پیغبراسلام ﷺ نے عطا کیےہیں۔ پھر عید کے موقع پر فرمایاکہ سوائے ان لوگوں کے جو بے خبر ہیں ہر کوئی جانتا ہےکہ قرآن مجید مسلمانوں کا ہمہ گیر و بالاتر اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ مذہبی بھی، معاشی اور معاشرتی بھی، دیوانی بھی فوجداری بھی، تجارتی بھی، عدالتی بھی، اور تعزیری بھی۔ یہ زندگی کی ایک ایک چیز کو باقاعدگی اور ترتیب دیتا ہے۔ان فرمودات سے وہ تمام شبہات دور ہو جاتے ہیں جو آج شدو مد سے پھیلائے جا رہے ہیں۔ افسوس کہ ہمارے حکمران قیامِ پاکستان کے مقاصد کو بھول بیٹھے ہیں اور مخالف سمت چل نکلے ہیں۔

.
تازہ ترین