• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی فوجی عدالتوں میں توسیع آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش

اسلام آباد (نمائندہ جنگ،ایجنسیاں، ٹی وی رپورٹ) قومی اسمبلی میں دستور 28ویں ترمیم بل 2017ء اور آرمی ایکٹ (ترمیمی) بل 2017ء پیش کردیئے گئے جبکہ اپوزیشن اراکین قومی اسمبلی نے فوجی عدالتوں کے حوالے سے توسیع کے معاملے کی حمایت کرتے ہوئے کہاہے کہ حکومت فیئر ٹرائل اور قومی سلامتی کمیٹی کے قیام کے حوالے سے اپنا وعدہ پورا کریگی۔ اجلاس میں بل پر بحث کے دوران آخر میں حکومت کے صرف  2؍ اور اپوزیشن کے 10؍ارکان موجود تھے۔ ایوان کا کورم بھی پورا نہ تھا تاہم اپوزیشن نے سمجھوتے کے تحت کورم کی نشاندہی سے گریز کیا۔ اجلاس کے دوران ایم کیو ایم نے اپنے کارکنوں کے غائب ہونے اور فاروق ستار کے ساتھ گزشتہ روز پیش آنے والے واقعے پر شدید احتجاج اور شور شرابہ کیا اور ایوان میں شیم شیم کے نعرے لگائے۔ ایم کیو ایم کی جانب سے شرجیل میمن والے واقعے کو مک مکا کہنے پر اسپیکر ایاز صادق کا کہنا تھا کہ  اگر شرجیل میمن کا واقعہ مک مکا ہے تو فاروق ستار والا واقعہ بھی کیا مک مکا ہے۔پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے تحریک پیش کی کہ دستور 28ویں (ترمیمی) بل 2017ء فی الفور زیرغور لایا جائے، اپوزیشن ارکان نے بل کی مخالفت کی تو وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ یہ بل کا اصل مسودہ ہے،مشاورتی اجلاس میں جن ترامیم پر اتفاق ہوا تھا ان کو ملا کر بل پڑھا جائے۔بعد ازاںوفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ ایوان میں دونوں بلوں پر بحث جاری ہے اس لئے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے بل پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ اسپیکر کی اجازت سے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے تحریک پیش کی کہ پاکستان آرمی ایکٹ (ترمیمی) بل 2017ء زیر غور لایا جائے۔ سید نوید قمر نے کہا کہ دو بل ایک ساتھ پیش کرکے نئی روایت نہ ڈالی جائے۔ وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ ممکن ہے کہ دستور میں ترمیم سے پہلے ہی آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل منظور کرلیا جائے اس لئے اس کا پیش کرنا ضروری ہے۔ بعد ازاںپیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر نے فوجی عدالتوں کے حوالے سے توسیع کے معاملے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ توقع ہے کہ حکومت فیئر ٹرائل اور قومی سلامتی کمیٹی کے قیام کے حوالے سے اپنا وعدہ پورا کرے گی۔ سید نوید قمر نے کہا کہ جس نے اپنے آپ کو بم سے اڑانا ہے اس کو کون ڈرا سکتا ہے اور اس کو کوئی کیسے عبرت دے سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی دو دہائیوں سے جاری ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اسکے دائرہ کار میں مذہبی رجحان رکھنے والے یا سیاستدان آجائیں۔ انہوں نے کہاکہ جس شخص کا ٹرائل ان عدالتوں میں ہونا ہے اسکی شفافیت ضروری ہے اور اس کو اپنا نکتہ نظر بیان کرنے کا حق بھی ہونا چاہیے۔ فوجی عدالتوں کی کارروائی اس انداز میں چلنی چاہیے کہ لوگوں کو اس کی شفافیت پر اعتماد ہو، جس شخص کا ٹرائل ہونا ہو اس کو اپنا وکیل رکھنے کا حق حاصل ہو یہی قانون شہادت کا تقاضا اور اس کا تعلق بنیادی انسانی حقوق سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون سے ماورا کوئی نہیں ہے ہمیں امید ہے حکومت نے قومی سلامتی کمیٹی کے حوالے سے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا کیا جائے گا۔ اس پر وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ بل کی منظوری کے بعد قومی سلامتی کمیٹی قائم کرنے کی قرارداد منظور کرائی جائیگی۔ اسپیکر نے کہا کہ وہ اسکی ذمہ داری لیتے ہیں۔ دستور 28ویں ترمیم 2017ء پر بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ غیرمعمولی حالات کیلئے ماضی میں دو سال کیلئے فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دی گئی۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے ایک مرتبہ پھر دو سال کی توسیع پر اپوزیشن کو آمادہ کرنے کیلئے ایک مرتبہ پھر وعدہ کیا ہے کہ ملک کے عدالتی نظام کیلئے اصلاحات لائی جائینگی۔ اسکے علاوہ قومی سلامتی کے مشیر نے بھی پارلیمانی لیڈروں کو اصل حقائق سے آگاہ کیا جسکے بعد ہم نے فوجی عدالتوں کی دو سال تک مزید توسیع پر آمادگی کا اظہار کیا۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ فوجی عدالتوں کی دو سالوں کی کارکردگی پر مشاورتی اجلاس میں بریفنگ کے علاوہ نیشنل ایکشن پلان اور قومی سلامتی کے امور پر متعلقہ اداروں کی جانب سے بریفنگ دی گئی۔فاٹا اصلاحات کے حوالے سے ہم حکومت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ پہلے بھی ہم نے مذہب کو دہشت گردی سے جوڑنے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔ جماعت اسلامی اس حوالے سے ترمیم جمع کرائے گی۔ انہوں نے کہا کہ فوج ہماری سرحدوں کی محافظ اور قومی سلامتی کی ضامن ہے،فوج پر ہمیں زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔ اگر حکومت نے ہماری ترامیم کے حوالے سے تعاون کیا تو ہم بل کے حق میں ووٹ دیں گے۔ پٹھانوں یا کے پی کے کے لوگوں کے ساتھ پولیس کے امتیازی برتائو سے نفرتیں جنم لیں گی۔ آفتاب احمد خان شیرپائو نے کہا کہ فوجی عدالتوں کی توسیع سے قبل ملک میں دہشت گردی اور امن و امان کی صورتحال پر بحث ہونی چاہیے تھی۔ طویل عرصہ سے ملک میں غیر معمولی صورتحال درپیش ہے۔ ملک میں امن و امان کا قیام اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ یہ بنیادی طور پر صوبائی مسئلہ ہے۔ صوبائی حکومتوں کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ تمام تر ذمہ داری نیشنل ایکشن پلان پر تھونپ دینا درست نہیں ہے۔ فوجی عدالتوں کا قیام غیر معمولی ضرور ہے تاہم یہ آئین سے ماورا اقدام نہیں ہے۔شیخ رشید احمد کا ایوان میں پیش کئے جانیوالے 28 ویں آئینی ترمیم کے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 2015 میں میرے اور فضل الرحمان کے سوا سب نے یہ مسودہ تسلیم کیا اور میں تو اس بات کا اعتراف ہوں کہ میں نے پرویز مشرف کا بھی ساتھ دیاتھا، مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ ملک میں سیلاب آئے تو فوج، آفت آئے تو فوج، اگر ہر مسئلے کا حل فوج ہی ہے تو حکمران اور سیاست دان کس مرض کی دوا ہیں؟انہوںنے کہا کہ ایسا کوئی سیاست دان نہیں جس نے مارشل لاسے جنم نہ لیا ہوجبکہ بلوچستان میں بڑے بڑے سرداروں، وڈیروں نے سیکڑوں ایکڑزمین لی۔شیخ رشید نے دعویٰ کیا کہ ملک میں سب سے زیادہ لوگ مقابلوں میں مارے جاتے ہیں اور ان مارے جانیوالے لوگوں کی بڑی تعداد پنجاب سے ہے۔میرا حکمرانوں سے مطالبہ ہے کہ کسی بے گناہ کے خلاف کارروائی نہ کی جائے،عدالتی نظام کو دو سال میں درست کیا جائے اورجو خود کو اڑاتے ہیں ان کے دماغ کا معائنہ کیا جائے جبکہ حکومت تو کورم بھی پورا نہیں کرسکتی تھی ایوان کو پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم اور تحریک انصاف نے چلایا۔جے یو آئی (ف) کی رکن قومی اسمبلی نعیمہ کشور خان نے کہا کہ جے یو آئی (ف) جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتی ہے، حکومت نے ہماری ترامیم کو بل کا حصہ بنایا تو بل پر ووٹنگ کے حوالے سے غور کرینگے۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما محمود اچکزئی نےکہا کہ میں اس بل کی مخالفت کروں گااور اسی صورت میں حمایت کروں گا۔اول یہ کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مارشل لاء دور میں مارشل لاء کی مخالفت میں استعفے دینے والے ججوں کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے قرارداد لائی جائے۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کی مذمت کی جائے، مارشل لاء ادوار میں جن سیاسی کارکنوں اور دیگر افراد کو کوڑے مارے گئے ان کیلئے معاوضوں کا اعلان کیا جائے اور مسلح افواج کا کوئی نمائندہ اپنی غلطیوں پر معافی مانگےکہ وہ آئندہ ایسی غلطیاں نہیں کرینگے۔ یہ قرارداد بھی لائی جائے کہ جس دن آئین کی خلاف ورزی ہوگی تو عوام سڑکوں پر ہونگے۔ محمود اچکزئی نے کہا کہ فوجی عدالتوں سے متعلق بل پرغورکیلئے تمام اجلاس اِن کیمرہ تھے،میں ان کیمرہ اجلاسوں کا قائل نہیں، اس بل کی منظوری کا مطلب ملک کے موجودہ عدالتی نظام پرعدم اعتماد کا اظہار ہے۔اس سے ان ججوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی جنہوں نے جمہوریت کی خاطر اپنی تنخواہوں پر ٹھوکر مارتے ہوئے پی سی او حلف اٹھانے سے انکار کیا۔مارشل لاء کے ادوار میں ہزاروں افراد کو کوڑے مارے گئے۔افواج پاکستان کے افسران نے بھی ججوں کی طرح حلف اٹھایا ہے کہ وہ کسی سیاسی سرگرمی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ آئین کی بنیاد پر ہی ملک کو چلانا ہوگا اور اسی بات پر وزیراعظم نواز شریف کی حمایت کی تھی فاٹا میں جو شناختی کارڈ استعمال ہو رہا ہے وہ مختلف ہے پختونوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہورہا ہے۔ 23مارچ کو یوم پاکستان ہے ملک کو چلانے کے لیے ججوں، سیاستدانوں اور جنرلوں کو تجدید عہد کرنا ہوگا۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما مخدوم شاہ محمود نے کہاکہ قوم پرایک مرتبہ بھی فوجی عدالتوں کا مسلط کرنا حکومت کی کوتاہی کا منہ بولتا ثبوت ہے اگر حکومت نے قانونی اصلاحات کی ہوتیں تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں غفلت کا اعتراف کیا۔ فوجی عدالتیں دہشت گردی کا سامنا کرنے میں کامیاب نہ ہونگی۔ اس کیلئے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔فوجی عدالتوں کا قانون آئین کا مستقل حصہ نہیں رہے گا۔ کچھ عرصہ کے بعد فوجی عدالتوں کا قانون اپنی موت آپ ہی مر جائیگا۔ فوجی عدالتیں سیاسی انتقام کیلئے استعمال نہ ہوں۔ انسدداد دہشتگردی کی عدالتوں میں سزاؤں کا تناسب بہت کم تھا۔ ایم کیو ایم کے رہنما شیخ صدرالدین نے کہا کہ آج ہم پھر کڑوا گھونٹ پینے جا رہے ہیں۔ آرمی پبلک اسکول پر حملے کے وقت وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ دو سال کیلئے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ اسکے بعد معاملات ٹھیک ہو جائینگے۔ لیکن دو سال گزرنے کے باوجود بھی ہم وہیں پر کھڑے ہیں۔ ملک کے وزیر داخلہ کو جواب دینا چاہیے کہ اتنے عرصہ میں کونسی کامیابیاں حاصل کی گئیں۔ نیشنل ایکشن پلان کا کیا بنا حکومتی نا اہلی کے باعث دہشت گردی کے حوالے سے کارکردگی صفر ہے۔ پاک فوج پورے ملک میں کہیں بھی کوئی واقعہ ہو جائے وہ پیش پیش ہوتی ہے اور ناکامی پارلیمنٹ کی ناکامی ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی طور پر نشانہ بنانے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے 7 سو سے زائد کارکنان جیلوں میں بند ہیں اور معاشی قتل کیا جا رہا ہے۔ جیلوں سے رہا ہونے والے کارکنوں کی نوکریاں بھی ختم کی جا رہی ہیں ان کو فوراً بحال کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ شرجیل میمن کا اچانک اسلام آباد آنا پی پی اور حکومت کے درمیان بیک ڈیل کا حصہ ہے ورنہ اتنی جلدی یہ معاملات طے نہ پاتے اور نظر نہ آتے۔ جس پر سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ معاملہ عدالت میں ہے اس پر بات نہ کریں اور کسی قسم کی کوئی ڈیل نہیں ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں قومی اسمبلی میں پارلیمانی سیکریٹری خزانہ رانامحمد افضل نے آڈیٹرجنرل کارہائے منصبی، اختیارات اورملازمت کی قیود و شرائط آرڈیننس 2001ءمیں مزید ترمیم کرنے کا بِل آڈیٹر جنرل کارہائے منصبی، اختیارات اور ملازمت کی قیود و شرائط ترمیمی بل 2017ایوان میں پیش کیا۔
تازہ ترین