• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حج اسکینڈل کا فیصلہ، کوئی تو ذمہ دار ہوگا،شاہزیب خانزادہ

کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوزکے پروگرام’’ آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں میزبان  شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ شرجیل میمن کیخلاف کرپشن کے الزامات سے متعلق کیس پیپلز پارٹی سندھ کے مستقبل کے امیج کا تعین کرسکتا ہے، شرجیل میمن کے خلاف فیصلہ آیا تو اس کے پیپلز پارٹی پر گہرے اثرات ہوں گے لیکن اگر ان کیخلاف لگائے گئے الزامات غلط ثابت ہوگئے تو یہ پیپلز پارٹی کی بڑی کامیابی ہوگی جو الزام لگاتی ہے کہ نیب کو صرف پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت نظر آتی ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ آج اسلام آباد ہائیکورٹ نے شرجیل میمن کی پانچ اپریل تک حفاظتی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے، اب شرجیل میمن کو احتساب عدالت میں خود پر لگے الزامات کا سامنا کرنا ہوگا، آج عدالتی سماعت کے بعد شرجیل میمن نے دعویٰ کیا کہ ان کیخلاف چوہدری نثار اینڈ کمپنی کام کررہی ہے، شرجیل میمن نے درست کہا کہ ان کیخلاف ریفرنس کی خبر آئی تو وہ پاکستان میں نہیں تھے اور ان کا ای سی ایل میں نام ڈالنا وزارت داخلہ کی اپنی پالیسی کیخلاف تھا جس میں ای سی ایل میں نام ڈالنے کیلئے باقاعدہ قوانین بنائے گئے تھے۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ شرجیل میمن دو سال ملک سے باہر رہنے کے بعد واپس آئے ہیں، جولائی 2015ء میں شرجیل میمن سے اطلاعات کا محکمہ واپس لے لیا گیا تھا جبکہ 2ستمبر2015ء کو انہیں سندھ کابینہ سے ہی نکال دیا گیا مگر وہ اس سے پہلے ہی خاموشی سے بیرون ملک جاچکے تھے، یہ سب اچانک نہیں ہوا تھا بلکہ انگریزی جریدے کی رپورٹ کے مطابق 2015ء کے آغاز میں ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سندھ میں کرپشن اور دہشتگردی گٹھ جوڑ کی بات کی اور اگلی ایپکس کمیٹی میں فوجی قیادت کی طرف سے کرپشن میں ملوث صوبائی وزراء اور افسران کی فہرست وزیراعلیٰ سندھ کے حوالے کی گئی اور انہیں ہٹانے کا کہا گیا، شرجیل میمن کا نام فہرست میں سب سے اوپر تھا اس لئے ان سے اطلاعات کی وزارت لے لی گئی تھی۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ سندھ میں کرپشن کے کئی کیسوں میں شرجیل میمن کا نام سامنے آیا لیکن ابھی تک ان پر کچھ ثابت نہیں ہوا ہے، شرجیل میمن سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کا اہم چہرہ رہے ہیں، ان کے علاوہ ایک اور شخصیت اویس مظفر بھی کافی عرصے سے بیرون ملک ہیں، سابق صدر آصف زرداری نے وطن واپسی کے بعد حامد میر کو دیئے گئے انٹرویو میں شرجیل میمن کی ممکنہ واپسی کا بھی ذکر کیا تھااور ایسا ہی ہوا،شرجیل میمن تو وطن واپس آگئے مگر اویس مظفر کی واپسی ابھی باقی ہے جو اہم ہوگی۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ حج کرپشن کیس کی وجہ سے پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی، ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس کیس کے پیچھے کوئی بھی قصوروار ثابت نہ ہو، بدانتظامیہ اور کرپشن کی وجہ سے ہزاروں حاجی مقدس مقامات پر رُل کر رہ گئے تھے، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ حج جیسے مقدس فریضے کو بھی کرپشن سے نہیں بخشا جائے گا مگر ایسا ہوا، پھر ایسا اسکینڈل سامنے آیا جس کے حقائق نے سب کو حیران کردیا، اس اسکینڈل کی نشاندہی سعودی شہزادے نے بھی کی، سپریم کورٹ آف پاکستان نے ازخود نوٹس لیا، دو وفاقی وزراء کو عہدے سے ہٹادیا گیا، اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کا نام بھی سامنے آیا مگر آج اسلام آباد ہائیکورٹ نے حج کرپشن کیس میں سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور حامد سعید کاظمی کو بری کردیا، عدالت نے سابق ڈائریکٹر جنرل حج راؤ شکیل اور وزارت مذہبی امور کے سابق جوائنٹ سیکرٹری راجا آفتاب کو بھی رہا کرنے کا حکم دیدیا، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ تینوں افراد معصوم ثابت ہوئے ہیں جیسا کہ عدالت کا فیصلہ ہے تو یہ بہت زیادہ لازمی ہے کہ کوئی نہ کوئی حاجیوں کی اس صورتحال کا ذمہ دار تھا، کیا حکومت ان ذمہ داروں کو ڈھونڈے گی جنہوں نے حج جیسے مقدس فریضے کے ساتھ یہ کیا جو حاجیوں کو بھگتنا پڑا،ریاستی اداروں کو حج کرپشن کیس میں حقائق سامنے لانا ہوں گے کیونکہ حج کے دوران کرپشن کرنے والے لوگوں کا بے نقاب ہونا بہت ضروری ہے۔شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کی مشکلات کم ہوتی نظر نہیں آرہی ہے، گزشتہ ہفتے جو کچھ ہوا اس سے تاثر ابھر رہا ہے کہ ریاست اس حوالے سے کوئی پالیسی بنا نہیں سکی ہے، گزشتہ ہفتے ایم کیو ایم کے یوم تاسیس سے کچھ دیر پہلے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ فاروق ستار کی ڈرامائی گرفتاری اور پھر رہائی کے حوالے سے کنفیوژن پھیلی رہی جو اب تک برقرار ہے، صوبائی حکومت اس کی تردید کرتی رہی لیکن گورنر سندھ محمد زبیر کی جانب سے اس کی تصدیق کی گئی، خود فاروق ستار بھی سمجھ نہیں پائے کہ یہ گرفتاری تھی یا بات چیت تھی۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل سامنے آنے کے بعد ملوث کھلاڑیوں کو مختلف سزائیں دینی کی تجاویز آرہی ہیں، کوئی ان پر تاحیات پابندی کی بات کررہا ہے تو کوئی انہیں جیل بھیجنے کے حق میں ہے جبکہ سابق کپتان جاوید میانداد نے تو فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کو سزائے موت دینے کی تجویز تک دیدی ہے، پورے ملک میں سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کھلاڑیوں کو فکسنگ جیسا ناپسندیدہ فعل کرنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے، انہیں زیادہ پیسے دے کر، جیل بھیج کر یا پابندی لگا کر کس طرح فکسنگ سے باز رکھا جاسکتا ہے، پچھلے کچھ سالوں میں کرکٹ میں بہت پیسہ آگیا ہے، کرکٹرز کاؤنٹی، مختلف پروفیشنل لیگز، اشتہارات اور پی سی بی سے سینٹرل کانٹریکٹ کر کے بہت پیسہ کماتے ہیں، پی سی بی شرجیل خان، خالد لطیف اور محمد عرفان کو انفرادی طور پر ماہانہ ڈھائی لاکھ روپے تنخواہ دے رہا تھا، شرجیل خان کو 70لاکھ روپے پی ایس ایل سے مل رہے تھے جبکہ اس واقعہ سے دو دن قبل ان کا کاؤنٹی سے ستر ہزار پاؤنڈ یعنی ایک کروڑ روپے کا معاہدہ ہوا تھا، اب جو کھلاڑی ایک سال میں دو ڈھائی کروڑ روپے کمارہا ہو اسے پانچ لاکھ روپے کی اسپاٹ فکسنگ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی جیسا الزام ہے۔سینئر تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم کیس کی طرح شرجیل میمن کیس کا فیصلہ بھی پیپلز پارٹی کیلئے بہت اہم ہے، پچھلے کچھ عرصہ سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان تناؤ کی بنیادی وجہ ڈاکٹر عاصم ہیں، ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد آصف زرداری کا نہایت شدید ردعمل آیا تھا، انہوں نے نواز شریف کو براہ راست مخاطب کر کے کہا تھا کہ آپ نے ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ مظہر عباس کاکہنا تھا کہ شرجیل میمن کو خوف تھا کہ اگر وہ کراچی لینڈ کرتے ہیں تو انہیں حفاظتی ضمانت نہیں مل پائے گی، شرجیل میمن حفاظتی ضمانت کے باوجود کراچی آتے ہوئے خوفزدہ ہیں کیونکہ بعض کیسوں میں یہاں ان کی گرفتاری ہوسکتی ہے، اس معاملہ میں پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کی بے بسی نظر آتی ہے، پیپلز پارٹی کے کچھ لوگوں کیخلاف نہایت سنگین الزامات اور انکوائریز ہیں، رینجرز کے ایک اعلیٰ افسر نے مجھے بتایا کہ عذیر بلوچ جیل سے سیل چلارہا ہے اس کے پاس نو موبائل فون ہیں مگر ہم کچھ نہیں کرسکتے ہیں، نیب کی کارروائی نے شرجیل میمن کے کیس کو مضبوط بنادیا ہے۔ مظہر عباس نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن، فشریز یا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے معاملات میں رینجرز، نیب، ایف آئی اے اور سندھ حکومت کا اپنا اپنا موقف ہے، ایجنسیوں کے آپسی اختلافات کی وجہ سے ہی ایسی چیزیں سامنے آرہی ہیں جہاں کبھی شرجیل میمن کو حفاظتی ضمانت مل جاتی ہے تو کبھی ڈاکٹر عاصم کی ضمانت مسترد ہوجاتی ہے اور عزیر بلوچ کے کیس میں معاملہ آگے نہیں بڑھ رہا ہے، کچھ لوگ پیپلز پارٹی پر دباؤ برقرار رکھناچاہتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے پیپلز پارٹی کے ان لوگوں کیخلاف کارروائی نہیں کی جن پر سنگین الزامات ہیں اور ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتوں کیخلاف کارروائی کی تو آپریشن متاثر ہوگا۔  ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے کہا کہ مجھے پولیس لے گئی تھی اور چاکیواڑہ پولیس اسٹیشن میں ایک گھنٹے رکھ کر جانے دیا گیا، میں نے یہ نہیں کہا کہ میری گرفتاری ہوئی تھی اور اسے روزنامچے میں ڈالا گیا تھا، کچھ پولیس اہلکاروں نے کہا کہ ہمیں اوپر سے حکم ملا جس کی تعمیل کررہے ہیں، بائیس اگست ایم کیو ایم لندن سے جڑی ہوئی ہے، ہمارے تیئس اگست کے واضح اقدام کے بعد بائیس اگست کی ایف آئی آر کو سیاسی ایجنڈے کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہئے، اس ایف آئی آر سے متعلق کنفیوژن کو مکمل دور کرنے کیلئے پالیسی واضح کرنا ضروری ہے، اگر ایف آئی آر لندن میں موجود لوگوں کیخلاف ہے تو انہیں کیسے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا، وزیراعظم سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے ہمارے موقف کا خیرمقدم کیا تھا، ناقابل ضمانت گرفتاری تو دیگر جماعتوں کے بھی کئی لوگوں کے جاری ہوئے ہیں۔معروف کرکٹر شاہد خان آفریدی نے کہا کہ کرکٹرز کو مختلف لیگز اور قومی کرکٹ ٹیم میں کھیل کر بہت پیسہ مل جاتا ہے، پاکستان کرکٹ بورڈ نے فکسنگ کرنے والے کھلاڑیوں کیلئے کوئی مثال قائم نہیں کی ہے، 2010ء میں انگلینڈ اسپاٹ فکسنگ کے وقت ہی بورڈ کو مثال قائم کردینی چاہئے تھی، انگلینڈ اسپاٹ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کو واپس لایا جارہا ہے، اگر اب بھی فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کیلئے کوئی مثال قائم نہیں کی گئی تو مستقبل میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہیں گے، اسپاٹ فکسنگ روکنے کیلئے چھوٹے چور ڈاکوؤں کے ساتھ سسٹم چلانے والوں کو بھی پکڑنا ہوگا، فکسنگ کے پیچھے بیٹھے بڑے لوگوں کیخلا ف بھی کارروائی کرنا ہوگی۔ شاہد آفریدی نے کہا کہ اینٹی کرپشن یونٹ والے ٹیم میٹنگ میں بار بار کھلاڑیوں سے کہتے ہیں اگر کوئی آپ سے رابطہ کرے تو فوراً ٹیم مینجمنٹ کو بتائیں، لڑکوں نے بکیز کے رابطوں کے بارے میں نہ بتا کر غلطی کی جو جرم ہے، اسپاٹ فکسنگ کا پڑھے لکھے یا ان پڑھ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان پڑھ اور پڑھے لکھے دونوں طرح کے کھلاڑیوں نے یہ غلطی کی ہے، اس کیلئے گھر کی تربیت بہت زیادہ ضروری ہے۔ شاہد آفریدی کا کہنا تھا کہ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کیلئے پانچ سال کی پابندی کافی نہیں ہے، اگر محمد عامر، سلمان بٹ اور محمد آصف پر تاحیات پابندی لگادی جاتی تو دوسرے کرکٹرز کبھی یہ حرکت نہیں کرتے، ان لڑکوں کی وجہ سے ہم نے بہت مشکل وقت گزارا ہے، ٹیم مینجمنٹ ہماری ہر حرکت پر نگاہ رکھی ہوتی تھی، سٹے بازوں کی وجہ سے ہمیں کرفیو کے ماحول میں کرکٹ کھیلنی پڑتی تھی۔سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ لندن میں پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات کے بعد پاک افغان سرحد کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، پاکستان کو پہلے سمجھنا چاہئے تھا کہ پاک افغان سرحد کی بندش کا زیادہ نقصان پاکستانی تاجروں کو ہوگا۔
تازہ ترین