• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں دہشتگردی کا کائی نیٹ ورک نہیں، چوہدری نثار

اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں)وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں کسی دہشت گرد تنظیم کانیٹ ورک یا ہیڈ کوارٹر موجود نہیں اور نہ ہی کسی دہشت گرد تنظیم کو پاک سرزمین میں کام کرنے کی اجازت ہے،کسی کو علم ہے تو معلومات شیئر کریں، کارروائی کی جائیگی، اب دہشت گردی کے نیٹ ورک سرحد پار ہیں، ملک بھر میں ہزاروں گرفتاریاں کیں، امن وامان کی بہتر صورتحال کی تعریف دنیا کررہی ہے، دہشت گرد اور فرقہ وارانہ تنظیموں میں فرق ہے کراچی کی صورتحال سب نے ملکر بہتر کی، کئی لوگوں کو خواہ مخواہ پوائنٹ اسکورنگ کا شوق ہے،میری ایک غیر ارادی ملاقات پر بہت شور کیا گیا، جب کالعدم تنظیموں کے رہنما سابق صدر اور وزراء سے ملتے تھے تب کوئی نہیں بولا،مجھ سے ملنے پر شور کرتے ہیں، ردالفساد، ضرب عضب اور نیشنل سیکورٹی پلان سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے، سیکورٹی کے مسئلے پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ پیر کوسینیٹ اجلاس کے دور ان سینیٹر سحر کامران اور دیگر ارکان کی تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اس ایوان میں دیئے گئے میرے گزشتہ بیان کے بعد اس بیان کو ایوان کے باہر نئے نئے معنی پہنائے گئے جس دن میں نے یہ بیان دیا تھا بہتر ہوتا اسی دن وضاحت مانگ لیتے۔ میں چیئرمین سینیٹ سے یہ کہتا ہوں کہ ہمیں حقائق اور دلیل کے ساتھ سچ بولنا چاہیے، ایوان میں جو بات ہو اس کا ایوان میں جواب آنا چاہیے۔ اپنے بیان کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں اسلئے خود ایوان میں آیا ہوں۔ میرے سابقہ بیان کی کاپی اس ایوان میں تقسیم کی جائے اگر میں نے یہ کہا ہے کہ دہشت گردوں سے نرمی برتنی چاہیے تو جوابدہ ہوں، میں نے کسی کو کمتر دہشت گرد نہیں کہا، ان سینیٹرز کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ہوش سے اور حقائق اور دلیل سے بات کی۔ آج ہم کالعدم تنظیموں کے بارے میں دونوں ایوانوں میں بات کرتے ہیں،اس معاملے پر میڈیا میں بھی بات ہوتی ہے۔ میں نے دونوں ایوانوں میں کھل کر کہا کہ سیکورٹی سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ پہلے پانچ سے چھ دھماکے روزانہ ہوتے تھے، دھماکہ نہ ہونا بڑی خبر ہوتی تھی۔ اب مہینوں، ہفتوں دھماکے نہیں ہوتے، شمالی وزیرستان سے دہشت گرد حملے ہوتے تھے، کیوں کسی نے کارروائی نہیں کی، دہشت گردی کے نیٹ ورک اب سرحد پار ہیں۔ انکے سہولت کار اور ہیلپرز کیخلاف بھی کارروائی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہزاروں لوگوں کو پکڑا گیا ہے، کئی کے خلاف کیسز بنے‘ کئی پر ہماری نظر ہے۔ سیکیورٹی کی صورتحال میں بہت بہتری آئی ہے، کسی دہشت گرد تنظیم کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔جو بھی دہشت گردی میں ملوث ہے اس کو پکڑا جائے گا یا ختم کیا جائے گا۔ کسی دہشت گرد تنظیم کا ہیڈ کوارٹر اب پاکستان میں نہیں ہے، پہلے شمالی وزیرستان میں ان کے ہیڈ کوارٹرز تھے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ فرقہ وارانہ سرگرمی میں ملوث تنظیموںکے رہنما تو کالعدم ہو جاتے ہیں وہ بھی اسی طرح کیس بھگتتے ہیں جس طرح دہشت گرد لیکن انکے ورکرز اور پیروکاروں جن پر الزام نہیں ہوتا ان کے خلاف کارروائی کیلئے قانون نہیں ہے کیونکہ وہ دہشت گردی میں ملوث نہیں ہوتے۔ یہاں کہا گیا میں جماعتوں سے ملتا ہوں، جن سے میں ملا وہ جے یو آئی (ف)، جے یو آئی (س) اور جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے ساتھ آئے۔ سابق حکومتوں کے وزراء سے جب وہ ملتے رہے تب تو شور نہیں ہوا۔ اس وقت کے صدر سے بھی ایک صاحب ملے ان کی تصاویر بھی موجود ہیں تب تو کسی نے بات نہیں کی۔ ایک صاحب نے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا تب کسی نے کارروائی نہیں کی۔ وہ پی ایم ایل (ن) کے امیدوار سے ہار گئے۔ بعد ازاں ہمارے امیدوار کو ڈی سیٹ کردیا گیا تب تو کوئی نہیں بولا۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ایک فرقہ وارانہ تنظیم کا کیس ابھی بھی چل رہا ہے، معاملہ ہائیکورٹ میں ہے، میں نے کبھی کسی صوبائی حکومت پر تنقید نہیں کی۔  چوہدری نثار نے ارکان اسمبلی سے اپیل کی کہ سکیورٹی کے معاملے کو سیاست کی نذر نہیں کرنا چاہیے،کبھی سندھ اور خیبرپختونخوا حکومت پر تنقید نہیں کی، سیہون واقعے کے بعد مجھ پر تنقید ہوئی جسکی وضاحت کی۔علاوہ ازیں آن لائن کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ملک میں دہشت گردوں اور فرقہ واریت کے خاتمہ کیلئے سیاسی جماعتوں کو مشترکہ طور پر قانون سازی میں حکومت کی معاونت کرنی چاہیے۔ فرقہ ورانہ تنظیموں کو نرمی یا رعایت دینے کی کبھی بات نہیں کی۔ کراچی مین سندھ کے اندر آپریشن کا کپتان وزیراعلیٰ سندھ کو بنایا، ملک میں امن سیکیورٹی ایجنسیز اور عوام نے مل کر قائم کرنا ہے۔ اقوام عالم نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان میں امن کیلئے بہتری آئی ہے۔علاوہ ازیں پیر کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران ارکان کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی کو آگاہ کیا کہ تصدیق کےلئے بلاک کئے گئے شناختی کارڈ کے معاملہ پر سیاست نہ کی جائے اور حکومت پر الزام تراشی نہ کی جائے ، ماضی میں ہزاروں کی تعداد میں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ فروخت کئے گئے ، 30ہزار 400جعلی پاسپورٹ منسوخ کئے گئے ، بلاک کئے گئے شناختی کارڈ میں پختونوں کی تعداد اس لئے زیادہ نظر آئی ہے کیونکہ 35لاکھ افغانی 40سال سے یہاں آباد ہیں اور بعض نے شناختی کارڈ بھی حاصل کئے ، کسی غیر ملکی کو پاکستان کی شہریت لینے نہیں دوں گا اور شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نہیں لینے دوں گا، حکومت نے گداگری کے خلاف مسلسل مہم کا آغاز کیا ہے اور 2016میں 13395گداگروں اور رواں سال اب تک 2928گداگر گرفتار کئے گئے اور ایدھی ہوم اور بچوں کی بحالی کے مراکز بھیجا گیا۔ جمشید دستی کے سوال کے جواب میں وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے آگاہ کیا کہ حکومت نے گداگری کیخلاف ایک مسلسل مہم کاآغاز کررکھا ہے، 2015میں 13395گداگر گرفتار کئے گئے جبکہ رواں سال اب تک 2928گداگر گرفتار کئے گئے ۔ شگفتہ جمانی کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری برائے منصوبہ بندی وترقی ڈاکٹر عباد نے کہا کہ حکومت غربت کے خاتمہ کےلئے کام کر ہی ہے ، دو سال میں غربت کی شرح کم ہو جائے گی۔ پروین مسعود بھٹی کے سوال کے جواب میں وزارت داخلہ نے آگاہ کیا کہ گزشتہ تین سال کے دوران اسلام آباد کے چڑیا گھر سے حاصل ہونے والی آمدنی 2.9کروڑ تھی جبکہ اخراجات کے 7.1کروڑ اخراجات رہے۔عبدالقہار خان کی جانب سے 0.4ملین کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بلاک کئے جانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ شکوک اور غیر ملکیوں اور زیر تصدیق کے زمرے میں بلاک کئے گئے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈوں کی مقدار 3لاکھ 44ہزار297ہے ،تصدیق کے حوالے سے یکساں معیار ہے کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جارہا ، یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے ، اس پر سیاست نہیں کرنی چاہیے ، ماضی میں ہزاروں کی تعداد میں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بیچے گئے ، 30ہزار 400جعلی پاسپورٹ منسوخ کئے گئے لیکن کسی نے شکایت نہیں کی کہ میرا پاسپورٹ غلط طور پر منسوخ ہوا ہے بحال کیا جائے ۔ اس معاملہ پر سیاست ملک اور عوام کے مفاد کے خلاف ہے ، پختونوں کے شناختی کارڈ بلاک ہونے کو اس تناظر میں دیکھا جائے کہ 35لاکھ افغان 40سال سے ملک میں آباد ہیں اور بعض نے شناختی کارڈ بھی حاصل کئے ، شناختی کارڈ کی تصدیق کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے ، مجھ پر الزام نہ لگایا جائے ،یہ گزشتہ 15سال سے ہورہا ہے اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس کا شناختی کارڈ غلط بلاک ہوا ہے تو شواہد لے کر عدالت جائے یا وزارت کو شواہد پیش کرے ،کسی غیر ملکی کو پاکستان کی شہریت نہیں لینے دوں گا اور نہ ہی پاسپورٹ دینے دوں گا ، ملا منصورسمیت ایک طویل فہرست ہے جن کو غیر قانونی شناختی کارڈ جاری کیا گیا ۔ایک سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری برائے داخلہ ڈاکٹر محمد افضل ڈھانڈوا نے کہا کہ اس وقت تک دو لاکھ 7ہزار پختونوں کے شناختی کارڈ بلاک کئے گئے ہیں ، بلاک کئے گئے شناختی کارڈز میں سے 7لاکھ15ہزار کی نشاندہی ہوچکی ہے کہ وہ غیر قانونی ہیں ۔
تازہ ترین