• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایچ ای سی بین الاقوامی ڈگری کی توثیق کرسکتا ہے،سیدعابدی

کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوزکے پروگرام’جیو پاکستان‘میں سینئر تجزیہ سیدعابدی نے کہا ہے کہ  ایچ ای سی بین الاقوامی ڈگری کی تصدیق نہیں ڈگری کی توثیق یااس کا مساوی دے سکتا ہے ،تسلیم شدہ جامعات کا مساوی ایچ ای سی جلد جار ی کردیتا ہے۔پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کارمظہر عباس نے کہا کہ ہمارے اکثر سیاست دان گرفتار ہونے کے بعد بیمار ہوجا تے ہیں، سینئر تجزیہ کارحفیظ  اللہ نیازی  نے کہا کہ آر ایس ایس اور ہندوتوا آج کی پیداوار نہیں ہمارے اکابرین نے پہلے ہی پرکھ لیا تھا۔پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کارمحمودجان  نے کہا کہ میڈیا پر چلنے والے خطوط کو صحافی برادری بغیر تحقیق کے آگے نہ بڑھائے۔رمیز راجہ کا کہنا تھا کہ ہمیں کرکٹ کو نئی سمت مہیا کرنی ہے جو پرانے کھلاڑیوں سے نہیں مل سکتی۔عارف پیارعلی نے پروگرام میں کہا کہ معاشرے میں کتنا ہی فساد برپا ہو اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔تفصیلات کے مطابق نوجوان نسل کی معاونت اور ان کے تعلیمی مسائل کوحل کرنے کیلئے ’جیو پاکستان‘ کے مہمان خصوصی ماہر تعلیم اور کیرئیر کونسلر سید عابدی نے کہا ہے کہ ایچ ای سی بین الاقوامی ڈگری کی تصدیق نہیں ڈگری کی توثیق یااس کا مساوی دے سکتا ہے، بیرون ملک سے حاصل شدہ ڈگری کی تصدیق سے متعلق ایچ ای سی کے پاس جامع منصوبہ بندی موجود ہے لیکن میںیہ بات واضح کردوں کہ بچوں کو اس سے متعلق کچھ غلط فہمیاں ہیں کہ ایچ ای سی بین الاقوامی ڈگری کی تصدیق کرے، ایچ ای سی بین الاقوامی ڈگری کی تصدیق نہیں صرف توثیق کرسکتا ہے یا پھر اس کے مساوی دے سکتا ہے۔سیدعابدی نے ڈگری کے مساوی ہونے سے متعلق جیو پاکستان کے توسط سے دنیا بھر کے طلبہ کو اس بارے میں آگاہ کیا کہ جب طلبہ پاکستان میں بین الاقوامی ڈگری لے کر آتے ہیں اور وہ آ گے پڑھنا چاہتے ہیں،پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں یا ان کا مقصد نوکری کا حصول ہوتا ہے تو اس کیلئے مساوی سر ٹیفکیٹ کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کام کیلئے ایچ ای سی کے پاس ایک جریدہ موجو د ہے جس میں تسلیم شدہ جامعات کی فہرست موجودہے جو جامعات زیادہ مشہور ہیں ان کا مساوی دینے میں ایچ ای سی کو زیادہ وقت نہیں لگتااور ایچ ای سی ایسی جامعات کا جلد ہی مساوی جاری کردیتا ہے لیکن بعض مقامات ایسے ہوتے ہیں جہاں ایچ ای سی کو لکھناپڑھتا ہے جس میں وقت زیادہ سرف ہوتا ہے تو میرے خیال سے یہ شکایت طلبہ کو ہیں لیکن ایچ ای سی اس پر جلدایک خط جاری کردیتا ہے کہ یہ ڈگری 16یا 18 سال تعلیم  کے مساوی ہے۔وہ جیو نیو ز کے پروگرام ’جیو پاکستان ‘میں میزبان ہماامیر شاہ اور عبد اللہ سلطان سے گفتگو کر رہے تھے ، پروگرام میں سینئر تجزیہ کار مظہر عباس،حفیظ اللہ نیازی، انسانی رویوں کے ماہر عارف پیار علی، کرکٹ کے راجا رمیز راجا،بیورو چیف پشاور محمود جان بابر، نمائندہ جیو قمبر زیدی اور اویس یوسف زئی بھی شامل گفتگو تھے۔خوشیوں کے عالمی دن پر تبصرہ دیتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ خوشی کا تعلق اطمینان سے ہوتا ہے اور میں جب خوش ہوتا ہوں جب مجھے پہلی تاریخ کو تنخواہ مل جاتی ہے، انہوں نے کہا کہ ٹینشن کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے اگر گھبرا جائیں گے تو مقابلہ نہیں کر سکتے، ٹینشن دور کیلئے انور مقصود کے ڈرامے ، کامیڈی فلم یا الف نون دیکھ لیں تو ٹینش دور ہو سکتی ہے۔  مظہر عباس نے کہا کہ ہمارے اکژ سیاست دان گرفتار ہونے کے بعد بیمار ہوجا تے ہیں شرجیل میمن کو مسائل ہیں اس حوالے سے بہت زیادہ ،زرداری  اور وزیر اعظم کو بھی اس قسم کے مسائل کا سامنا  رہاہے  وزیر اعظم کی  توسرجری ہی متنازعہ بن گئی تھی۔شرجیل میمن کی گرفتاری سے متعلق مظہر عباس نے کہا کہ اس کیس میں ہمیں نظر آتا ہے کہ قانون سب کیلئے برابر نہیں ہے،شرجیل میمن نے کہا کہ انہیں اغوا کیا گیا تو ان کو اغوا کا پرچہ درج کرانا چاہئے تھا،۔ ایف آئی اے اور نیب کے سندھ میں معاملات پہلے سے چلتے آرہے ہیں مراد علی شاہ بھی اس حوالے سے ناراض نظر آئے ، ما ضی میں بھی دیکھنے میں آیا کہ ایف آئی اے نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پر چھاپہ مارا اور چھاپے کے دوران 17,18ہزا فائلیں ضبط کرلی گئیں جن کا آج تک پتا ہی نہیں چلا لیکن سوال یہ ہے کہ چیئرمین نیب تو حکومت اور اپوزیشن کی مرضی سے بنے ہیں تو پھر شکایت کس بات کی ہے اسی طرح الیکشن کمیشن کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہے فاروق ستار اور شرجیل میمن کے وارنٹ تھے تو انہیں گرفتار کرنے میں دیر کیوں کی گئی اور پھر چھوڑ بھی دیا گیا، اسی طرح فاروق ستار کی 22اگست کی الطاف حسین کی ملک مخالف تقریر میں نعرے لگانے اور ان کا ساتھ دینے والوں کے خلاف کیس بننا چاہئے تھا لیکن اس میں سیاسی رہنمائوں کے خلاف بھی کارروائیاں جاری ہیں۔ صدر میں موجود جہا نگیر پارک کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ یہ پارک پارسی کمیونٹی نے تحفہ کے طور پر دیا تھا،پارسی کمیونٹی نے شہر کا بہت خیال رکھا ہے، وزیر اعلی سندھ نے فوری احکامات جاری کئے تھے اس پارک کی درستگی کی  جائے لیکن تا حال اس پر کام سست روی کا شکار ہے ، پارکوں پر قبضہ کیا جاتا ہے اس کے بعد عدالت سے حکم امتناع لیا جاتا ہے اور پھر اس پر تعمیرات شروع کی جاتی ہیں ، اور اس مخصوص دورانیہ میں پوری عمارت ہی مکمل تیار ہوجاتی ہے اور اس کے بعد یہ کہا جا تا ہے کہ اب تو عمارت بن چکی اب گرانے کا کیا فائدہ، جنہوں نے غیر قانونی تعمیرات کیں قبضہ کیا ان سب کو جیل میں ہونا چاہئے۔
تازہ ترین