• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسداددہشتگردی سوشل میڈیااستعمال کرنیوالوں کو بغیر ایف آئی آر کےغائب کرنےلگا

 اسلام آباد( عاطف شیرازی)  پنجاب پولیس کا،کائونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ بھی سوشل میڈیا یوزر ز کو ڈرامائی انداز میں غائب کرنے لگا ہے،نفرت آمیز موادلائیک کرنے ،داعش کے خلاف پاکستانیوں کو شام اورسعودی عرب بھیجنے کے الزام  میں بغیر ایف آئی آر کے اٹھا لیا جاتا ہے،پروویژن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ2016 کا غلط استعمال ہونے لگا،  کارروائیاں  پرائمری سورس کے بجائے پوسٹس لائیکس اور شئیر کرنے والوں کے خلاف ہونےلگی ہیں۔ضلع خوشاب میں سی ٹی ڈی کی کارروائی کانشانہ بننے والے ایک سوشل میڈیا یوزر نے بتایاکہ اس کو صارف بن کر کال کی گئی کہ کچھ  سامان دوسرے شہر بھیجنا ہے آپ کی دکان بند ہے ،  آپ دکان پر آئو ، یوزر نے بتایاکہ جب وہ دکان پر پہنچا تو اسے کہا گیا کہ ہمارے ساتھ دوسرے شہر چلو، سامان وہاں پڑا ہے، میرے انکار پر انہوںنےپسٹل تان کر کہاکہ موٹر سائکل پر بیٹھو اور جوہرآباد تھانےچلو ،میرے شور مچانے پر میرے جاننے والے دو لڑکوں نےمداخلت کی تو انہوں نےخود کو سی ٹی ڈی کا اہلکار ظاہر کیااور مجھے موٹر سائیکل پربٹھا لیا اور پھر میری خواہش پر پہلے تھانہ خوشاب لے گئے جہاں محرر نے کہاکہ ہم کچھ نہیں کرسکتےیہ حساس ادارے کےملازم  ہیں، بعدازاں مجھے تھانہ جوہر آباد منتقل کیا گیا  وہاں  میرے  منہ پرکالا کپڑا ڈال کے ہاتھ باندھ کے مجھے کسی خفیہ مکان میں منتقل کر کے تشددکیا گیا اور پوچھ گچھ کی گئی کہ تم نے شام میں کتنے بندے بھیجے ہیں، فلاں شخص کو شام کیوںبھیجا؟  ایک نامور مولانا کی پوسٹ کیوں لائیک کی، اسی طرح  کے  دیگر سوالات کیے گئے ،اسطرح بنیادی سورس کے  بجائے مجھے بغیر ایف آئی ار کے اٹھا لیا گیا  ۔ میرے شور مچانے اور اہل شہر کو ملوث کرنے کیو جہ سے لوگوں کو اور میرے گھروالوں کو معلوم ہوگیا تھاکہ  مجھے سی ٹی ڈی کے اہلکاروںنےاٹھایا ہےاور مجھے تھانےمیں نہیںرکھا گیا ہےبعدازاں کچھ ثابت نہ ہونے پر 4 دن بعد مجھے مقامی  صوبائی وزیر کی یقین دہانی اور ضمانت پر چھوڑ دیا گیا،سوشل میڈیا یوزر کا کہنا تھا کہ مجھے سے بیان حلفی لیا گیا کہ مبینہ اہلکاروں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیںکی جائے گی۔ دوسری جانب ڈی پی او خوشاب وقاص حسن نےنمائندہ جنگ کے رابطہ کرنے پر بتایاکہ ان کے ضلع میں کسی کو غائب نہیں کیا گیا  ، ایف آئی اے نے کسی کواٹھایا ہےتو وہ کچھ نہیںکہہ سکتے ،اگر سی ٹی ڈی اٹھاتی ہےتو والدین کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ آپ کابیٹا نفرت آمیز مواد  شئیر اور لائیک کررہاہے ،سی ٹی ڈی پنجاب پولیس کا  ہی ڈیپارٹمنٹ  ہے ، جو فرقہ وارانہ  پوسٹ شئیر کرنے والوں اور لائیکس کرنے والوں کواٹھاتی ہے۔بلاگرز کو نہیں اٹھایا جارہا ۔اس حوالے سے انسانی حقو ق کے کارکن اور ماہر قانون لالہ حسن نے بتایاکہ Provision of Electronic Crime Act2016کے تحت جو بھی ہیٹ  پوسٹ اپ لوڈ، شئیر کرے گا ،لائیک  کرے گا اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکے گی، بنیادی طور حکومت مخالف پوسٹس کو روکنے کے لیے یہ ایکٹ لایا گیا ہے لیکن کسی بھی سوشل میڈیا یوزر کو بغیر ایف آئی آر کےقطاً نہیں اٹھایا جاسکتا  ، اگر کسی نے متنازعہ پوسٹ شئیر یا لائیک کی ہے تو اس کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کیلئے عدالت سے اجازت لینی ہوگی بغیر اجازت کے ایف آئی آر کا اندراج نہیںکیا جاسکتا ،  بغیر ایف آئی آر کے لوگوں کو اٹھاناغیر قانونی ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے آئی ٹی سسٹم کو اپ گریڈ کریں اور غیر قانونی گرفتاریوں کا سلسلہ بند کرے ۔ 
تازہ ترین