• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مردم شماری اور خانہ شماری کی راہ میں دو سیاسی جماعتوں نے رکاوٹیں پیدا کرنا شروع کردی

اسلام آباد(تبصرہ:طارق بٹ)مردم شماری اور خانہ شماری  جو نہ صرف وقت کی اہم ضرورت بلکہ قومی ذمہ داری بھی ہے،کی راہ میں دواہم سیاسی جماعتوں نے رکاوٹیں پیدا کرنا شروع کردی ہے۔یہ ابھی اپنے ابتدائی مرحلے کے پہلے فیز میں ہے، جو کہ چاروں صوبوں کے 63 اضلاع میں کی جارہی ہے۔پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ نے اعلیٰ عدلیہ میں علیحدہ علیحدہ پٹیشن دائر کی ہیں اور اس عمل پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، جو کہ پہلے ہی آئین کے برخلاف 9سال کی تاخیر سے شروع ہوا ہے۔موجودہ چھٹی مردم شماری کو 2008 میں ہونا تھا۔نہ ہی پیپلز پارٹی کی حکومت نے ہمت کی کہ وہ مردم شماری کروائے اور نہ ہی ایم کیو ایم نے حوصلہ کیا کہ وہ اس پر اعتراض کرے ، جب کہ وہ پرویز مشرف کے دور میں خودمختار تھے۔نواز شریف حکومت نے ہمت دکھاتے ہوئےمردم شماری کا انعقاد کیا ہے، جب کہ اس نے یہ فیصلہ تقریباً ایک برس قبل کیا تھا تاہم اب دو جماعتیں اس عمل میں مداخلت کی کوشش کررہی ہیں، جس کے نتیجے میں یہ عمل سست روی کا شکار ہوسکتا ہے اور پاکستان کی مردم شماری اور خانہ شماری کا عمل جلد مکمل نہیں ہوسکے گا۔پی پی پی نے سندھ ہائی کورٹ میں اس عمل کو چیلنج کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اس عمل کے دوران جمع کیے گئے تمام اعداد و شمار ظاہر کیے جائیں۔انہوں نے مبینہ طور پر اس عمل میں بے ضابطگیوں کا بھی الزام عائد کیا ہے۔پیپلز پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے دعویٰ کیا ہے کہ معلومات تک رسائی ہمارا بنیادی حق ہے۔تاہم متعدد اہم معلومات کو مردم شماری میں خفیہ ظاہر کیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری میں حاصل کردہ اعداد و شمار کو فوری طور پر ویب سائٹ پر دینا چاہیئے تاکہ عوام کو معلوم ہوسکے کہ کتنے گھروں کی نشاندہی ہوچکی ہے۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ عوام کو ان کے بارے میں اعداد وشمار سے لاعلم رکھا جائے گا اور تمام معلومات اسلام آباد بھیج دی جائیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ تمام شہریوں کو ان کی معلومات سے متعلق کاپی فراہم کی جائے تاکہ وہ بعد میں اعداد و شمار کا تجزیہ کرسکیں۔ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کردہ پٹیشن میں مردم شماری کے عمل پر مبینہ دھاندلی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔مردم شماری سے قبل بلاکس کی گنتی میں بے شمار بے ضابطگیاں کی گئی ہیں۔مردم شماری سے قبل دھاندلی کے طور پرشہری آبادی کے بلاکس میں کمی لائی گئی ہے۔گزشتہ مردم شماری میں ان بلاکس کی گنتی 47.65 فیصد تھی تاہم موجودہ عمل میں اسے کم کرکے 45فیصدکردیا گیا ہے۔جب کہ گزشتہ 18برسوں میں شہر میں منتقلی کے سبب شہری آبادی میں لازمی اضافہ ہوا ہے تاہم حکومت  نے بلاکس کی تعداد کم کرکے مردم شماری میں تبدیلی کی ہے۔اس عمل میں فوجی دستوں کی شمولیت کا بنیادی مقصد اس عمل کی شفافیت اور اہمیت کو برقرار رکھنا تھا، کیوں کہ سیاسی جماعتوں کی عادت ہے کہ وہ کسی بھی حکومتی اقدام کی چاہے وہ کتنی ہی اہمیت کا حامل کیوں نہ ہواس کے خلاف شکایتیں ہی کرتی ہیں۔انہوں نے ہمیشہ مطالبہ کیا کہ فوج کو نگرانی کے لیے طلب کیا جائے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج کی شمولیت اس بات کو یقینی بنانے کے لیےتھی کہ کوئی شکایت سامنے نہ آئے۔متعدد انتخابات بھی فوج کی نگرانی میں ہوئے جو کہ تحفظات اور شکایتوں کے خلاف فصیل کا کردار ادا کررہے تھے، جب کہ کوئی ایک دوسرے پر اعتماد کرنے پر راضی نہیں تھا۔تاہم، نتائج قبول کرنے کے بعد بھی کچھ لوگوں نے انتخابی عمل پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔پی پی پی اور ایم کیو ایم مختلف قومی اعمال میں بھی فوج کی شمولیت کا مطالبہ کرنے میں آگے رہے ہیں۔انہوںنے مردم شماری اور خانہ شماری  کے عمل میں بھی فوج کی شمولیت کا مطالبہ حکومت سے کیا تھا۔اب جب کہ شیڈول کے مطابق یہ عمل جاری ہےیہی جماعتیں اس کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہیں۔موجودہ حکومت نے جب مردم شماری کا فیصلہ کیا تھا تو اس نے تمام اسٹیک ہولڈرز کی رائے لی تھی۔یہ فیصلہ مفاد عامہ کی کونسل کے اجلاس میں ہوا تھا، جس میں تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی تھی۔موجودہ مسائل کے حل وہاں تفصیل سے سامنے لائے جانے تھے۔یہاں تک کہ اتنے اہم عمل کو کہ جس کے بغیر کوئی اہم پالیسی یا منصوبہ بندی ناممکن ہےاسے بھی غیر ضروری طور پرمسئلہ بنایا جارہا ہے۔تاریخی طور پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں لگاتار ہونے والی مردم شماری پر سیاسی جماعتوں کے درمیان یا تو اختلافات ہوئے نہیں یا بہت کم ہوئے تاہم سیاسی مسائل سندھ میں سر اٹھاتے ہیں جس کی وجہ شہری اور دیہی علاقوں میں مختلف سیاسی کھلاڑیوںکی مقبولیت ہے۔ایم کیو ایم کا ماننا ہے کہ شہری آبادی کم دکھانے کی وجہ انہیں نقصان پہنچانا ہے۔جب کہ پی پی پی کو پریشانی یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں یہ عمل ان کی مرضی کے مطابق نہیں ہورہا۔بظاہر ان پٹیشن کے پیچھے ٹھوس وجوہات کے بجائے سیاسی مقاصد ہیں۔15 مارچ کو شروع ہونے والی مردم شماری کو صرف 5روز ہی گزرے ہیں، یہ عمل 15اپریل تک جاری رہے گا۔جب کہ دوسرا مرحلہ 25اپریل کو شروع ہوگا اور ایک ماہ بعد اختتام پذیر ہوگا۔
تازہ ترین