• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم کی تقاریر و نظریاتی بیانیہ کی تبدیلی خصوصی مراسلہ…حشمت اللہ صدیقی

جناب وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف کے حالیہ جامعہ نعیمیہ لاہور،سینٹرل پولیس آفس اور اب کراچی میں خطاب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نظریاتی بیانیے میں بھی تبدیلی آ رہی ہے اور وہ ایک نئے انقلابی بیانیے کی جانب گامزن ہیں جو کہ ملکی حالات کا تقاضا ہے کہ اب ماضی کی فاش غلطیوں پر مبنی بیانیے سے چھٹکارا حاصل کیاجائے جس کا کافی نقصان ملک و قوم کو اٹھانا پڑا ہے ۔ قتل و غارت گری، منشیات، تعصبات ، انتہا پسندی، فرقہ واریت و دہشت گردی نے پاکستان کا حقیقی چہرہ مسخ کردیا ہے اور دنیا بھر میں پاکستان کو ان حوالوں سے بدنام کیاجا رہا ہے۔ ان حالات میں جناب وزیراعظم کے نظریات میں جوتبدیلی آرہی ہے وہ ان کی حالیہ تقاریر میں واضح ہے وہ اب ماضی سے مختلف نظر آرہے ہیں وہ ایک واضح سمت کی جانب جانا چاہتے ہیںجو موجودہ عالمی و ملکی حالات کے مطابق ایک نیا انقلابی بیانیہ ترتیب دے تاکہ ملک کو اس کی اصل شناخت دی جا سکے۔ جبکہ فوج بھی آپریشن ردالفساد کے ذریعے اس مقصد کے حصول کیلئے قربانیاں دے رہی ہے تاکہ ملک کو دہشت گردی کے ناسور سے نجات دلاکر یہاں ایک پرامن و تشدد و انتہا پسندی سے پاک معاشرہ قائم ہو اور عالمی سطح پر پاکستان کا ایک روشن چہرہ نظر آئے لہٰذا ضرورت ہے کہ ماضی میں عالمی مفادات و سیاست کے مدنظر جوبیانیے، پالیسیاں ترتیب دی گئیں تھیں جس کا ذکر موجودہ وزیر دفاع نے بھی انتہائی صاف گوئی و جرأت کے ساتھ اپنے ایک خطاب میں کیاکہ’’جن لوگوں نے آج ہم پر بندوقیں تانی ہوئی ہیں اور جن کے نشانے پر ہمارا ملک، سوسائٹی اور ہمارا نظام ہے ان کے ہاتھوں میں 30سال پہلے اس وقت کی ریاست نے بندوقیں تھمائیں تھیں اس وقت مقاصد مختلف تھے لیکن کسی نے نہ سوچا کہ یہ بندوقیں ہم پر ہی تانی جائیں گی کسی کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ ان لوگوں کو سزائیں دینے کیلئے ہم قانون سازی اور آئین میںترمیم کریں گے‘‘ کچھ انہی خیالات کا اظہار مدرسوں کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن بھی کررہے ہیں لہٰذا ان حقائق کے بارے میں انتہائی سنجیدگی و گہرائی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ماضی کے ان بیانیوں و پالیسیوں نے ملک کو آج کس نہج پر کھڑا کر دیا ہے۔ جناب وزیراعظم کے حالیہ خیالات اس طرح کےہیں کہ اب ان پالیسیوں میں واضح تبدیلی ہونی چاہئے اور ایک نیا قومی بیانیہ موجودہ عالمی و ملکی حالات کے تناظر میں ترتیب دینا چاہئے بلاشبہ وزیراعظم کے خیالات ایک محب وطن کے احساسات ہیں جو کہ قوم کی ترجمانی کرتے ہیں۔ انہوںنے گستاخانہ مواد پھیلانے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی اور انہیں عبرتناک انجام تک پہنچانے کا عزم کیا ہے۔ ملکی مفاد اور امن عامہ کیلئے ضروری ہے کہ بیرونی سطح کی ان سازشوں کو بھی ملک میں فتنہ و فساد و دہشت گردی پھیلانے کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اس کے قلع قمع کیلئے بھی سخت اقدامات کئے جائیں جو کہ پوری قوم کا مطالبہ ہے۔ اس کے علاوہ انہوںنے کراچی کے مسائل خصوصاً امن و امان پربھی اظہار خیال کیا اورآپریشن کے بعد امن کی بحالی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے لیکن ضروری ہے کہ آپریشن کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق منطقی انجام تک پہنچایا جائے اور اس سے جڑ ے مسائل کو بھی حل کیا جائے خصوصاً کراچی میں اسٹریٹ کرائم ، لوڈشیڈنگ، کچرے کی صفائی، گندے پانی کی نکاسی، بجلی کے زائد بل، نادرا کے شناختی کارڈ کے حصول میں مشکلات، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ اور ٹریفک جام کے مسائل بھی فوری حل کئے جائیں جن کے باعث شہریوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ محض ہولی کھیلنے و بسنت منانے سے ملک کو روشن خیال نہیں بنایا جاسکتا ۔ قائداعظم محمد علی جناح نے فروری 1948ء میں امریکہ کے نام اپنے ایک پیغام میںان الفاظ میں واضح کردیا تھا کہ ’’پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کو ابھی پاکستان کا آئین مرتب کرنا ہے میں نہیں جانتا کہ اس آئین کی آخری شکل کیاہو گی لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی اصولوں کا آئینہ دار جمہوری انداز کا آئین ہو گا ‘‘۔ضروری ہے کہ نیا بیانیہ قائد کے انہی اصولوں ونظریات کے مطابق ترتیب دیاجائے تاکہ یہ ملک ایک روشن خیال ،فلاحی اسلامی ،جمہوری مملکت بن سکے۔



.
تازہ ترین