• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیہون شریف سندھ میں حضرت لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کے سفاکانہ حملے کے بعد بند کی جانے والی پاک افغان سرحد وزیراعظم نواز شریف کے احکامات کے تحت 32روز بعد خیرسگالی کے جذبے سے کھول دی گئی ہے۔ پیر کو وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری ہونے والےایک بیان میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ اس کے باوجود کہ حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے واقعات کے تانے بانے افغانستان میں موجود پاکستان دشمن عناصر سے جا ملتے ہیں، ہم سمجھتےہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان صدیوں کے مذہبی، ثقافتی اور تاریخی رابطے اور تعلق کے پیش نظر سرحدوں کا زیادہ دیرتک بندرہنا عوامی اور معاشی مفاد کے منافی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ جن وجوہات کی بنا پر یہ قدم اٹھایا گیا تھا اس کے تدارک کیلئے افغان حکومت تمام ضروری اقدامات کرے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں امن و سلامتی کیلئے افغانستان میں دیرپا امن ناگزیر ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ تحریک طالبان پاکستان، اس سے الگ ہونے والے دہشت گردوں کی جماعت الاحرار اور دوسرے گروپ پاکستان میں قتل و غارت کیلئے مسلسل افغان سر زمین استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان نے بارہا کابل حکومت سے کہا کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کرے اس پر وہ افغان طالبان اور نیٹ ورک کے پاکستانی سر زمین استعمال کرنے کا الزام لگا کر حقائق کی طرف سے آنکھیں بند کئے رہی۔ پاکستان نے دونوں طرف سے دہشت گردوں کی آمد و رفت روکنے کیلئے بارڈر مینجمنٹ کا نظریہ پیش کیا اس پر بھی کابل حکومت کا جواب مایوس کن تھا۔ ان حالات میں پاک افغان سرحد بند کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا جس کے نتیجے میں طورخم اور چمن کے راستے دونوں ملکوں میں تجارت رک گئی تاجروں کو کروڑوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ زیادہ نقصان افغانستان کو ہوا جس کی برآمدات متاثر ہوئیں پاکستان سے درآمد رکنے کے باعث اشیائے صرف کی قیمتیں بڑھ گئیں اور عام لوگوں میں بے چینی پھیل گئی۔ مسئلے کے حل کےلئے پچھلے کئی روز سے دونوں ملکوں کے حکام کی بات چیت جاری تھی اس دوران لندن میں پاک افغان مذاکرات میں دہشت گردی سمیت تمام معاملات پر غور ہوا اور باہمی کشیدگی ختم کرنے پراتفاق کیا گیا۔ وزیراعظم کی جانب سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سرحد کھولنے کا حکم انہی رابطوں کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے لیکن کابل کی جانب سے تاحال اپنی سرزمین کا پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال روکنے کے حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی جو ایک افسوسناک امر ہے۔ یقیناً اسی تناظر میں وزیر دفاع خواجہ محمد اصف نے میڈیا سے گفتگو کے دوران متنبہ کیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں نےپھر کوئی کارروائی کی تو سرحد دوبارہ بند کردی جائے گی۔ سیہون شریف اور لاہور میں دہشت گردی کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے براہ راست یا داعش کے نام سے قبول کی۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد اس گروہ کا ہیڈ کوارٹر افغانستان منتقل ہو گیا تھا جماعت الاحرار کے علاوہ دوسرے دہشت گرد گروپوں نے بھی افغانستان کے اندر پاکستان کی سرحد سے بعض صورتوں میں چند سو گز کے فاصلے پر مورچہ بندی کر رکھی ہے اور آئے روز سرحدی چیک پوسٹوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے کارندے پیج در پیج سرحد سے داخل ہو کر پاکستان کے اندرونی علاقوں میں وارداتیں کرتے ہیں۔ پاک فوج نے پاکستان کے اندر دہشت گردوں کا صفایا کردیا ہے یہاں ان کا کوئی نیٹ ورک موجود نہیں۔ دہشت گرد اب سرحد پار ہی سے آکر خونی کھیل کھیلتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی طرف سے سرحدیں کھولنے کے پاکستانی فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ توقع کی جانی چاہیئے کہ عالمی برادری دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی بیش بہا جانی اور مالی قربانیوں کا ادراک کرتے ہوئے افغان حکومت اور اس کے سرپرستوں کو تباہی و بربادی کے راستے پر چلنے سے روکے گی تاکہ شدت پسندی کا خاتمہ اور خطے میں امن و استحکام کی راہ ہموار ہو۔

.
تازہ ترین